تحریر:- محمد رضا سید
لبنان خانہ جنگیوں کے باوجود مغربی ایشیا کا خوشحال ملکوں میں شامل تھا، اس ملک نے فرانس سے آزادی حاصل کی مگر ایک ایسا آئین اور سیاسی ڈھانچہ تشکیل دیا جس میں مسلمان اکثریت کو شیعہ اور سنی میں تقسیم کرکے عیسائی اقلیت کو ریاست کی اہم سیاسی اکائی بنادیا، حزب اللہ نے اپنے سیاسی فورم سے لبنان کے قومی مفادات کی بنیاد پر کم و بیش تینوں اکائیوں کو لبنانی سیاسی دھارے کا حصّہ بنایا اور مشکل ترین اقتصادی حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے ملک کو سیاسی انتشار سے بچائے رکھا، اس دوران بھی اسرائیل اور اس کے حمایتی ملکوں نے سیاسی حکومت کیلئے بحران پیدا تو کیا مگرحزب اللہ کے قائد سید حسن نصراللہ کی سیاسی بصیرت اور سیاسی اثر و نفوذ نے بڑے سلیقے کیساتھ سیاسی سطح پر لبنان میں بحران پیدا نہیں ہونے نہیں دیا، 7 اکتوبر 2023ء کے بعد غزہ میں فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کے انسانیت سوز حملوں اور منظم نسل کشی کے نتیجے میں مسلم برادری کے جذبے کے تحت شمال میں اسرائیل کے خلاف مزاحمتی محاذ سرگرم ہوا تو غاصب اسرائیل نے لبنان میں سیاسی انتشارپیدا کرنے کیلئے اپنے کثیر الجہتی مذموم منصوبے پرتیزی کیساتھ عملدرآمد کرنا شروع کردیا، اس منصوبے کو فرانس اور امریکہ کی پشت پناہی حاصل تھی لہذا فرانس اور امریکہ کے لبنان کیلئے متعین خصوصی نمائندے بیروت میں بیٹھ کر اسرائیلی منصوبے کو آگے بڑھارہے تھے، امریکہ کی جو بائیڈن انتظامیہ نے تو اسرائیلی نژاد شخص کو لبنان کیلئے اپنے ملک کا نمائندہ تعینات کردیا۔
اسرائیلی فوج کو لبنان کے عسکری محاذ پر خاطر خواہ کامیابی نہ ملنے کی وجہ سے اسرائیل اس عرب ملک کو سیاسی طور پر غیر مستحکم کرنے کیلئے فرقہ واریت کا سہارا لے رہا ہے، غاصب اسرائیل اپنے تازہ ترین شیطانی منصوبے کے تحت لبنان میں فتنہ اور خانہ جنگی کی آگ بھڑکانے کیلئے بیروت کے عیسائی اور دروز علاقوں پر بمباری کررہی ہے، جہاں اسرائیلی بمباری سے متاثرہ شیعہ مسلمان خاندانوں نے پناہ لے رکھی ہے ، عیسائی اور دروز علاقوں پر بمباری کا بنیادی مقصد اِن دونوں برادریوں کو پناہ گزینوں کے خلاف بھڑکانا ہے ، متاثرین جو پہلے ہی امدادی خیموں میں کَسْمپُرْسی کی زندگی گزار رہے ہیں جن کواسرائیل اور اس کے حمایتی ملک نفرت اور حملوں کا شکار بنوانے کیلئے تدبیریں اختیار کررہے ہیں تاکہ لبنان فرقہ وارانہ بنیاد پر خانہ جنگی کا شکار ہوکر سیاسی عدم استحکام کا شکار ہوکر اسرائیل کیلئے ترنوالہ بن جائے، اسرائیل نے بیروت کے جنوب میں دحیہ کے قریب واقع دو محلوں زوغرتہ اور عین الدالب کو نشانہ بنایا اور جہاں شیعہ پناہ گزینوں کا استقبال کیا گیا تھا ، اس بمباری کا مقصد لبنان کی عیسائی اور دروز برادریوں کو شیعہ مہاجرین کے خلاف بھڑکانا اور رہائشی مکانات کو تباہ کرنا، اسی تناظر میں بیروت میں مقیم لبنانی تجزیہ نگار نبیل عوضہ نے نے کہا اسرائیل کی طرف سے عیسائی، دروز اور دیگر مخلوط علاقوں پر حملہ کرنا اور خاص طور پر دحیہ کے آس پاس علاقوں کو نشانہ بناناجبکہ وہاں حزب اللہ کا کوئی ہیڈکوارٹر یا دفاتر نہیں ہےواضح کرتا ہے کہ اسرائیل جارحیت کے شکار ملک میں سیاسی اور مذہبی ہم آھنگی کے خلاف سازشیں کررہا ہے۔
اسرائیلی فوج کے حملے ایسے وقت میں جب بیروت میں امریکہ اور بعض عرب ملکوں سے وابستہ عناصر کی فتنہ انگیزی اپنے عروج پر پہنچ چکی ہے، لبنان سے موصولہ اطلاعات کے مطابق بیروت میں تعینات امریکی سفیر لبنان کی نسلی اور مذہبی تقسیم کی فالٹ لائن میں چھیڑ چھاڑ کر رہے ہیں وہ لبنان میں ایک ایسے گروہ کی سرگرمیوں کی مالی اور سیاسی مدد کررہے ہیں جو بیروت میں شیعہ-عیسائی اور شیعہ-دروز کے درمیان فرقہ وارنہ نفرت کو ہوا دے رہا ہے اس گروہ کی تبلیغات کا محور یہ ہے کہ اسرائیل کی عیسائیوں اور دروز سے کوئی دشمنی نہیں ہے ، ہمارے علاقوں پر اسرائیلی بمباری کی وجہ شیعہ خاندانوں کو پناہ دیا جانا ہے ، اسرائیلی انٹیلی جنس اِن علاقوں میں میں دروز جو اسماعیلیوں فرقے سے منحرف ہونے والا گروہ ہے کو بار بار پیغامات ارسال کررہے ہیں کہ وہ اپنے علاقوں سے پناہ گزین شیعہ مسلمان پناہ گزینیوں کو نکالیں اور یہ سب اس لئے کیا جارہا ہے کہ حزب اللہ سے عسکری محاذ پر ناکامیوں کے باوجود حزب اللہ پر دباؤ بڑھایا جائے، لبنان کی مذہبی اور قبائلی فالٹ لائن پر نظر رکھنے والے ایک لبنانی ماہر علی مراد نیوز ایجنسی سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ دشمن دیگر اقلیتی برادریوں کو مزاحمت سے دور کرنے کی کوشش کر رہا ہے، جب اسرائیلی فوج شہریوں کو نشانہ بناتی ہے یا مزاحمت کے حامیوں کے علاقوں پر بمباری کرتی ہے جہاں مزاحمت کے حامی پناہ گزین ہیں یا وہاں سے گزرتے ہیں تو وہ براہ راست وطن دوست ماحول پر نفسیاتی اثر ڈالتے ہیں تاکہ دروز اور عیسائی سڑکوں پر آ جائیں اور کہیں کہ پناہ گزینیوں کو اِن کے علاقوں سے نکالا جائے۔
لبنان کی صورتحال میں ایک اچھی خبر یہ ہے کہ سعودی عرب مسلکی تنازعات کو ہوا دینے سے گریز کررہا ہے، سعودی عرببہ کی سلفی مسلمانوں پر مشتمل لابی اسرائیل کے خلاف مزاحمت کیساتھ کھڑی نظر آرہی ہے حالانکہ لبنان کے عبوری وزیراعظم جو حزب اللہ کی حمایت کی وجہ سے اس منصب پر موجودہیں دائیں بائیں جانے کی کوشش کررہے ہیں، انہیں امریکہ اور فرانس بھرپور انداز میں استعمال کررہے ہیں۔