تحریر: محمد رضا سید
اسرائیلی افواج کے لبنان پر فضائی حملون کے جواب میں مزاحمتی تحریک حزب اللہ نے اتوار کو ڈرون اور میزائلوں سے مقبوضہ علاقوں میں اسرائیلی فوجی تنصیابت کو نشانہ بنایا ہے، دوسری طرف حزب اللہ نے لبنان کے جنوب میں اسرائیل کے بڑھتے ہوئے وحشیانہ حملوں کو بند نہ کیا گیا تو اسرائیل کی تیل کے بنیادی ڈھانچے کو تباہ کردیا جائیگا، حزب اللہ نے تل ابیب کو خبردار کرنے سے قبل اسرائیل کے زیر قبضہ شہر حیفہ میں دو فوجی اڈوں کی ویڈیو جاری کی تھی، یاد رہے کہ حیفہ میں ہی اسرائیل کی تیل تنصیبات موجود ہیں، حزب اللہ نے شمالی اسرائیل کے بیت ہلیل پر ڈرون حملے کیا، جب کہ اسرائیلی فضائی حملوں نے جنوبی لبنان کے دو دیہات کفر کلی اور طیبہ کو نشانہ بنایا ہے، لبنان کے اندر آبادیوں پر اسرائیلی حملوں میں اضافی تل ابیب کے اس اعلان کے بعد کئے گئے ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل، لبنان کے خلاف وسیع جنگ شروع کرنے کے قریب ہے، جس کے بعد امریکہ اور اس کے مغربی اتحادی اسرائیل اور حزب اللہ کیساتھ اعلیٰ سطح پر سفارتی رابطے کررہے ہیں تاکہ اسرائیل اور لبنان کے درمیان وسیع جنگ شروع نہ ہوسکے، امریکہ کو اس بات کا احساس ہے کہ اسرائیل کی حزب اللہ کے خلاف وسیع جنگ تل ابیب کی معاشی اور جنگی صلاحتوں کو مزید کمزور بنادے گی اور اس کی نگاہیں امریکہ اور مغربی ملکوں کی امداد کی طرف مرکوز ہوگی جبکہ اِن ملکوں میں مضبوط اسرائیلی لابیز کے باوجود وہاں اسرائیل کے خلاف عوامی ردعمل اِن حکومتوں کو مجبور کررہی ہیں کہ وہ عوام کے ٹیکسوں کو اسرائیل کی ناجائز اور متکبرانہ خواہشات ہوار کرنے کیلئے مالی مدد پر خرچ کریں، گذشتہ ہفتے کے روز شمالی لبنان کی وادی بیقا میں اسرائیلی فضائیہ نے ایک گاڑی کو نشانہ بنایا تھا، تل ابیب نے اس حملے میں حماس کے ایک کمانڈر کو شہید کرنے کا دعویٰ کیا تاہم جماعت الاسلامیہ گروپ نے اپنے ایک کمانڈر ایمن غوطمہ کی شہادت کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ وہ لبنان کے مشرقی علاقے وادی بیقا کے علاقے میں خیارا میں غاصب اسرائیلی فوج کے حملے شہید ہوئے ہیں بعد ازاں اسرائیل نے وادی بیقا کے علاقے خیارا میں جماعت الاسلامیہ کی فجر فورسز کے مسلح ونگ اور حماس کو ہتھیاروں فراہم کرنے والے کو نشانہ بنانے کی وضاحت جاری کردی۔
حزب اللہ نے اتوار کے روز کہا کہ اس کے جنگجوؤں نے اسرائیل کے زیر قبضہ عرب سرزمین کے علاقے بیت ہلیل میں اسرائیلی فوج کی بیرکوں پر ڈرونز سے حملہ کیا، یہ حملہ اسرائیل کی جانب سےجماعت الاسلامیہ کے رکن کی شہادت کے بعد کیا گیا، دریں اثناء اسرائیلی فوج نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ایک ڈرون "لبنان سے عبور کر کے بیت ہلیل کے علاقے میں گرا لیکن تل ابیب نے اپنے فوجیوں کی ہلاکتوں کی تعداد سے آگاہ نہیں کیا، اسرائیل اپنے فوجیوں کی ہلاکتوں کی تعداد کو مخفی رکھتا ہے اور فوجی قانون کے مطابق کوئی فوجی ذریعے پریس کو اسرائیلی فوجیوں کی ہلاکتوں کی خبر فراہم کرتا ہے تو قانون کے تحت اسے گرفتار کرلیا جاتا ہے اور کورٹ مارشل کرکے سخت سزا دی جاتی ہے تاہم تل ابیب نے اپنے 70 ہزار فوجیوں کے نفسیاتی مسائل کا شکار ہونے کی اطلاع دی ہے جن کاعلاج معالجہ کیا جارہا ہے، عرب سرزمین پر قابض حکومت کے وزیر خارجہ کاٹر نے تل ابیب میں گزشتہ ہفتے کہا کہ اسرائیل حزب اللہ اور لبنان کے خلاف مکمل جنگ کا آغاز کرنے کیلئے سوچ بچار کررہا ہے، اُنھوں نے دعویٰ حزب اللہ کو تباہ کرنے اور لبنان کو شدید نقصان پہنچانے کا دعویٰ کیا، مسٹر کاٹز نے طویل عرصے سے لبنان کے شہری ڈھانچے پر حملوں کی دھمکی دیتے آئے ہیں، اسرائیلی دھمکیوں کے جواب میں حزب اللہ کے رہنما حسن نصراللہ نے تل ابیب کو باور کرایا ہےکہ جنگ کو پھیلایا گیا تو اور جو کچھ ہم نشانہ بنا سکتے ہیں ہم اس میں کسی رعایت سے کام نہیں لیں گے حزب اللہ نے ہفتہ کی رات کو ایک ویڈیو جاری کی جس میں اسرائیل کے اسٹریٹجک اثاثوں بشمول حیفہ اور اشدود کی بندرگاہوں پر توانائی ذخیرہ کرنے کی ڈرونز سے بنائی گئی فلم دکھائی گئی، جو اس بات کا اشارہ ہے کہ حزب اللہ یقینی طور پر اسرائیل کو مفلوج کرنے کی عسکری استعداد رکھتی ہے، غزہ پر اسرائیل کے وحشیانہ حملوں کے بعد حزب اللہ نے 8 اکتونر 2023ء سے اسرائیل کے زیر قبضہ عرب سرزمیں کے شمال میں قابض فوج کو مصروف رکھا ہوا ہے، جسکی وجہ سے اسرئیلی فوج کو نہ صرف عسکری اور مالی نقصان پہنچ رہا ہے بلکہ تل ابیب کو روز اوّل سے ہی غزہ میں حماس کو ختم کرنے کے خواب کو پورا کرنے کیلئے مطلوبہ زمینی فورس بھی دستیاب نہیں ہوسکی اورحزب اللہ کی جانب سے شمالی محاذ کھولنا خالصتاً اسرائیل کے خلاف ایک دباؤ محاذ ہے۔
اُدھر مختلف عرب اور غیر عرب ملکوں میں سرگرم اسلامی مزاحمتی تحریکوں نے اعلان کیا ہے کہ اگر اسرائیل نے لبنان پر جنگ مسلط کردی تو افغانستان سے یمن اور عراق سے شام تک پھیلی مزاحمتی تحریکیں حزب اللہ کے مجاہدین شانہ بشانہ جہاد کریں گی، یہ اعلان لبنانی سرحد پر مقبوضہ علاقوں کے ساتھ بڑھتی ہوئی کشیدگی کے دوران کیا گیا ہے، عراقی مزاحمتی گروہوں نے کہا ہے کہ اسرائیل نے جنگ کا دائرہ بڑھایا تو وہ حزب اللہ کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر لڑیں گے، دوسری طرف عراق کے ایک عہدیدار نے انکشاف کیا ہے عراق کے کچھ فوجی مشیر پہلے ہی لبنان میں موجود ہیں، لبنانی عہدیدار نے کہا کہ عراق کے عوامی رضاکار فورسز، افغانستان کے فاطمیون، پاکستان کے زینبیون اور یمن کے انصاراللہ کے جنگجو اسرائیل کے خلاف جہاد میں حصہ لینے کیلئے آمادہ ہیں، حزب اللہ نے عہد کیا ہے کہ وہ اپنے جوابی حملے جاری رکھے گی جب تک کہ تل ابیب حکومت اپنی غزہ جنگ جاری رکھے ہوئے ہے، مشرق وسطیٰ کی تیزی سے بدلتی صورتحال میں امریکہ اور مغربی ملکوں کی قیادت کا خیال ہے کہ کشیدگی بڑھنے کی صورت میں اسرائیل کو مزید معاشی اور فوجی دباؤ کا سامنا کرنا پڑے گا اور اِن ملکوں کی عوام اپنے ٹیکسوں کی آمدنی کو اسرائیل کی خواہشات پورا کرنے کیلئے مالی اور فوجی امداد پر صرف کرنا نہیں چاہتی ہیں، اسرائیل کو سمجھنا ہوگا یہ 1967ء نہیں ہے جب عرب قیادت کو یہودی عوارتیں کنٹرول کرتی تھیں، اسرائیل کا مقابلہ سرفروشوں سے ہے جو اللہ کی راہ میں جہاد کررہے ہیں۔