وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے کہا ہے کہ ہمارے ظرف کو ہماری کمزوری نہ سمجھا جائے اور اگر پالیسی سافٹ ویئر اپ ڈیٹ کی ہے تو سافٹ ویئر اپ ڈیٹ ہم بھی کر سکتے ہیں، میں افغانستان سے بطور وزیر اعلیٰ صوبہ خیبرپختونخوا بات کروں گا اور ان کے ساتھ بیٹھ کر بات چیت سے مسئلہ حل کروں گا، وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور نے پشاور میں وکلا سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جب ریاست سے انصاف نہیں ملتا تو ریاست کے شہری کو چاہے آپ کتنی ہی سہولیات دے دیں وہ پرسکون نہیں ہو سکتا، بدقسمتی سے ہم لوگ ایسا نہیں کر سکے اور اس کی وجہ یہ تھی ہم نے ہر چیز کو سیاست کی نذر کیا اور میں کا بت نہیں توڑا اور سمجھوتہ کیا، یہی وجہ ہے کہ آج ہمارا عدالتی نظام دنیا میں جس نمبر پر آتا ہے اس پر ہمیں شرم آتی ہے، انہوں نے کہا کہ اس کو ٹھیک ہم نے کرنا ہے، کوئی باہر سے آ کر ٹھیک نہیں کر سکتا، وکلا سے درخواست ہے کہ ایسے کیس نہ لیں جس میں کسی کے انصاف کی حق تلفی ہو رہی ہو، آپ کا مقصد کیس جیتنا نہیں بلکہ انصاف دینا ہے، ان کا کہنا تھا کہ جب تک ہم قانون کی حکمرانی قائم نہیں کریں گے ہم پیچھے ہی جاتے جائیں گے، آئین کی بالادستی ہم پر فرض ہے، ہمارے ملک میں یہ آئین بار بار ٹوٹ چکا ہے لیکن آج تک سزا نہیں ہوئی، یہ آئین پھر ٹوٹے گا اور کوئی اسے توڑنے کی بار بار جرات کرے گا کیونکہ سزا نہیں ہو رہی، جب سزا ہو گی تو کوئی جرات نہیں کرے گا، وزیر اعلیٰ نے کہا کہ آئین توڑنے والوں کو آئین کے مطابق سزا دینی ہو گی اور سب سیاسی جماعتوں نے سیاسی وابستگی سے بالاتر ہو کر یہ سوچنا ہو گا کہ آپ کو بطور انسان اور پاکستانی شہری کیا حکم دیا گیا ہے، جس نے ہم یہ سوچ اپنا لی تو ہمارے 99 فیصد کیسز حل ہو جائیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ قرآن میں جابر حکمران کے خلاف آواز بلند کرنے اور جاں سے جہاد کرنے کا غکم دیا گیا ہے، میں کسی کو اکسا نہیں رہا بلکہ یہ حکم قرآن میں دیا گیا ہے، میں لوگوں کو یہ بات بتاؤں گا اور اس پر عمل بھی کروں گا، اس سے مجھے کوئی نہیں روک سکتا، انہوں نے کہا کہ کوئی ناراض ہو جاتا ہے کہ آپ ہمارا نام نہ لیں، کیا میں آپ سے جھوٹ بولوں، آپ کی چاپلوسی کروں، کیا میں منافق بن جاؤں، کیا آپ کو نہ بتاؤں کہ آپ کے اقدامات سے نفرت پھیل رہی ہے، کیا نہ بتاؤں کہ آپ کو عمل کررہے ہیں وہ آئین اور قانون کی خلاف ورزی ہے، میں آپ کا غلام نہیں ہوں، میں آزاد ہوں، نہ کوئی میری آزادی چھین سکتا ہے نہ میری زبان بند کر سکتا ہے البتہ اگر مجھ میں غلطی ہے تو میں اصلاح کے لئے تیار ہوں لیکن نہ میں چاپلوس ہوں نہ کسی کا چمچہ ہوں، علی امین گنڈاپور نے کہا کہ دو پاکستان نہیں چل سکتے، دو قانون اور نظام نہیں چل سکتے، اس پر ہمیں اسٹینڈ لینا پڑے گا، آج میرا لیڈر جس کیس پر اندر ہے اس توشہ خانہ کے اندر وہ غیرقانونی طور پر جیل کاٹ رہا ہے، انہوں نے کہا کہ نیب احتساب کے لئے نہیں بلکہ انتقام کے لئے بنی ہوئی ہے، ادارے احتساب کے لئے نہیں انتقام لینے کے لئے بنے ہوئے ہیں، اگر میری پولیس قانون پر عملدرآمد کے بجائے کسی سے انتقام لینے کے لئے استعمال ہو گی تو یہ نظام نہیں چل سکتا، یہ نظام اس حد تک گر چکا ہے کہ کوئی بھی شخص خود کو محفوظ تصور نہیں کرتا، ان کا کہنا تھا کہ چھ مہینے سے ایک صوبے کا وزیر اعلیٰ کہہ رہا ہے کہ میرے اوپر ایک گھنٹے میں سات ضلع میں ایف آئی آر ہے اور میں وہاں موجود نہیں ہوں، میری ایف آئی آر دکھا دو، میری ایک ویڈیو دکھا دو، کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔
اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے تحریک انصاف کے رہنما نے کہا کہ میں للکاروں تو میری بات پسند نہیں آتی، میں تمہارا نوکر ہوں، میں تمہارا ملازم یا مزارع ہوں، میں پاکستان کا شہری اور ایک آزاد انسان ہوں، آپ کو مجھے جواب دینا پڑے گا اور آپ مجھے جواب نہیں دیں گے تو میں بولوں گا اور پوچھوں گا، میں آواز اونچی کروں گا، میں نکلوں گا کیونکہ مجھے آئین کہتا ہے، انہوں نے کہا کہ پرسوں پتا چلا کہ میں نے ایک ڈی ایس پی کی کنپٹی پر پستول رکھا ہے، میں آپ کو لکھ کر دے رہا ہوں کہ میں نے تو کوئی نیلی وردی والا بندہ دیکھا ہی نہیں ہے، پورے راستے میں آتے اور جاتے ہوئے میں نے اسلام آباد پولیس کی کوئی نیلی وردی نہیں دیکھی، ڈی ایس پی تم سے جو یہ کہہ رہا ہے اور کروا رہا ہے میں اس کا نام بھی اگلواؤں گا اور تم سے پوچھوں گا کہ تم نے کس کے کہنے پر یہ کام کیا ہے، وزیر اعلیٰ نے کہا کہ جس جیل سپرنٹنڈنٹ نے میرے گرفتار شدہ کسی شخص کو چاہیے وہ میری پارٹی کا ہے یا نہیں، اگر قانون توڑ کر جیل سے نکال کر کسی کے حوالے سے کیا ہے تو سپرنٹنڈنٹ صاحب تمہیں اس کا نام بتانا ہو گا اور سپرنٹنڈنٹ صاحب تم نام لو گے، اگر سافٹ ویئر اپ ڈیٹ وہاں سے ہو سکتا ہے تو یہاں سے بھی ہو سکتا ہے، اگر پالیسی سافٹ ویئر اپ ڈیٹ کی ہے تو سافٹ ویئر اپ ڈیٹ ہم بھی کر سکتے ہیں، علی امین گنڈاپور نے کہا کہ میں ڈیوٹیاں دینے والے اپنے پولیس اہلکاروں کو سلام پیش کرتا ہوں لیکن ان کو بدنام غلط پالیسیاں کررہی ہیں، میں ان غلط پالیسیوں والوں سے کہتا ہوں کہ ان پر رحم کھا لو، میں نے ایپکس کمیٹی کے اجلاسوں میں کہا کہ میری پولیس کا خون بہہ رہا ہے لیکن ان کو پرواہ ہی نہیں ہے۔