جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا ہے کہ موجودہ نظام ذمہ دار ریاست کے بجائے وقتی اشتعال اور عجلت میں فیصلے کر رہا ہے لیکن ریاست کے معاملات دھمکیوں اور جذبات سے طے نہیں ہوتے، پشاور میں جے یو آئی کے تحت گرینڈ قبائلی جرگے کے بعد نیوز کانفرنس کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن نے ایک بار پھر عزم استحکام آپریشن کو عدم استحکام قرار دیا، انھوں نے کہا کہ قبائلی جرگے کے ایجنڈے پر عزم استحکام آپریشن کی بات نہیں تھی لیکن قبائل کے جرگے میں تمام صورتحال پر بحث ہوئی اور جرگے میں قبائلی عوام نے آپریشن پر عدم اعتماد کا اظہار کیا، انھوں نےکہا کہ جنوبی اضلاع میں مغرب کے بعد پولیس اپنے تھانوں میں محصور ہوجاتی ہے، ان کے مطابق ماضی کے آپریشن میں قبائلی عوام کی عزت نفس اور معاش کا قتل کیا گیا، ان کے مطابق پہلے آپریشن کے بعد دربدر ہونے والوں کو ابھی تک گھر نہیں ملے گھروں کا سامان تک نہیں ملا جب وہ واپس آئے تو سامان لٹ چکا تھا، گھروں اور گلی کوچوں میں جنگل اگائے گئے اور کہا گیا کہ خود کاٹو، مولانا فضل الرحمن کے مطابق آج بھی قبائل پاکستان کے اندر دربدر ہیں، ابھی بھی وہ اپنے گھر جانے کے قابل نہیں رہے ہیں قبائل کیساتھ زیادتی کی گئی انہیں سبز باغ دکھائے گئےکہا گیا قبائل کو ہر سال سو ارب اور ایک ہزار ارب دس سال میں دیں گے۔
فضل الرحمٰن نے کہا یہ دعوے بھی کیے گئے کہ 50 سے 60 ارب کے درمیان ہمیں پیسہ ملا ہے کچھ خاص علاقوں میں قلعے، سڑکیں اور دو چار مساجد بھی بنائی گئی ہیں، ان کے مطابق جب دنیا سے وفود آتے ہیں تو پھر انھیں وہیں لے کر جاتے ہیں کہ دیکھو قبائل نے کتنی ترقی کی ہے جبکہ یہ قبائل کے ایک فیصد سے بھی کم علاقہ ہے، ان کے مطابق پاکستان افغان عوام کی امیدوں کو خاکستر کیا جارہا ہے، کیا ہم افغانستان کو مستحکم کرنے کے بجائے غیر مستحکم کرنا چاہتے ہیں؟ انھوں نے کہا کہ میں اس وقت کہتا تھا کہ قبائل سے پوچھ کر انضمام کا فیصلہ کیا جائے اور اس کیلئے ریفرنڈم کروایا جائے، مگر ایسا نہیں کیا گیا، ان کے مطابق اب تو آپ کو انضمام کا مزا آ گیا ہوگا، کیا واقعی پانچ سال بعد وہاں خوشحالی آئی ہے۔