بلوچستان میں جبری طور پر شہریوں کے لاپتہ کرنے کا سلسلہ جاری ہے، انسانی حقوق کے اداروں کا کہنا ہے کہ شہریوں کو لاپتہ کرنے میں خفیہ اداروں اور سکیورٹی فورسز کا ہاتھ ہے، 28 مئی کو بلوچ طالب علم فاروق بلوچ کو اغواء کرکے لاپتہ کرنے کے خلاف اس کے اہل خانہ نے رشتہ داروں اور سول سوسائٹی کے اراکین کے ساتھ مل کر احتجاجاً نیشنل ہائی وے بلاک کر دی جس سے منگل کو مکران کے علاقے کیچ میں ٹریفک کی روانی متاثر ہوئی، لاپتہ طالب علم کے اہل خانہ نے بتایا کہ فاروق بلوچ سمیت 5 طالب علم 28 مئی کو کوئٹہ کے ایک علاقے سے لاپتہ ہوئے، جہاں وہ زیر تعلیم تھے، انہوں نے کہا کہ دیگر 4 طلبہ گھر واپس آچکے ہیں لیکن فاروق بلوچ تاحال لاپتہ ہیں اور ان کے اہل خانہ لاعلم ہیں کہ وہ کہاں اور کس حالت میں موجود ہے یا مار دیا گیا ہے، طالب علم کے اہل خانہ، رشتہ داروں اور سول سوسائٹی کے ارکان نے فاروق بلوچ کی بازیابی کا مطالبہ کرتے ہوئے ضلع کیچ کے علاقے تاجبان میں کوئٹہ تربت قومی شاہراہ بلاک کردی، لاپتہ طالب علم کی والدہ نے مطالبہ کیا ہے کہ میرے بیٹے کو بازیاب کرایا جائے جو گزشتہ 14 دن سے لاپتا ہے، انہوں نے کہا کہ جب تک ان کا بیٹا نہیں مل جاتا، ہم احتجاج جاری رکھیں گے۔
پاکستان میں عمران خان حکومت کی تبدیلی کے بعد سیاسی بنیادوں پر لاپتہ کرنے کا سلسلہ بڑھ گیا ہے، تحریک انصاف کی کور کمیٹی کے رکن شہباز گِل سمیت بیرون ملک مقیم صحافیوں کے اہل خانہ کو اذیت پہنچانے کا سلسلہ جاری ہے، شہباز گِل کے دو بھائیوں کو حراست میں لیا جوکہ معلم کے پیشے سے وابستہ تھے، پاکستان میں سیاسی حکومتوں کو عام طور پر اس بات کا علم نہیں ہوتا ہے کہ لاپتہ افراد کو کس نے اغواء کیا ہے اور انہیں کہاں رکھا جاتا ہے جبکہ اکثر اوقات جس مقام سے شہری کو اغواء کیا جانا ہوتا ہے وہاں کی فوٹیج میسر نہیں ہوتی، اس سلسلے میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس کیانی کے سامنے صحافی اور شاعر احمد فرہاد کے اغواء کا مقدمہ زیر سماعت ہے، اس دوران اعلیٰ عدلیہ نے آئی ایس آئی اسلام آباد کے سیکٹر کمانڈر کو طلب کیا مگر وہ عدالت کے سامنے پیش نہیں ہوئے۔