جمعیت علمائے اسلام(ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ہے کہ آنے والے دنوں میں نظام کے اندر موجود لوگ روئیں گے اور جو سسٹم سے باہر ہیں وہ جم کر اور جرات سے بات کریں گے، سسٹم چلنے والا نہیں ہے اور مجھے فکر ہے کہ کہیں پاکستان نہ ختم ہو جائے، پشاور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ہم نے ساری زندگی الیکشن لڑے ہیں اور میری یہ داڑھی الیکشن میں سفید ہوئی ہے، 1965 کا الیکشن مجھے یاد ہے، 1970 کے الیکشن میں والد صاحب کے لئے مہم چلائی تھی، انہوں نے کہا کہ الیکشن مہم کے دوران ہی لوگوں کو پتہ چل جاتا ہے کہ اس حلقے میں کن کن کا آپس میں مقابلہ ہے، کون جیت رہا اور کون ہار رہا ہے لیکن یہاں نتائج ایسے لوگوں کے حق میں آئے ہیں جو الیکشن مہم میں نظر ہی نہیں آ رہے تھے، گھروں میں سوئے ہوئے تھے، الیکشن سے دستبردار شدہ لوگ کامیاب ہو گئے، ان کا کہنا تھا کہ یہ کیا الیکشن تھے، اس طریقے سے نہیں ہو گا، یہ جو آپ کو لگ رہا ہے کہ یہ اِن ہو گئے اور وہ باہر ہو گئے ہیں تو یہ اِن ہو کر بھی روئیں گے، ملک ان سے نہیں چلے گا، یہ اِن ہو کر بھی روئیں گے، ان سے ملک نہیں چلے گا، نظام چلنے والا نہیں ہے، یہ ڈھے جائے گا، ہم نے تو ہمیشہ اس ملک کی بقا و سلامتی اور استحکام کی جنگ لڑی ہے اور اس کا صلہ اسٹیبلشمنٹ نے ہمیں جس طرح دیا ہے تو اس تمام تر دھاندلی کی ذمے دار وہی قوت ہے۔
فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی جیتی ہے تو پھر ان کو حکومت دیں، اگر واقعی وہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے دھاندلی نہیں کی تو 9 مئی کا بیانیہ دفن ہو گیا، پھر تسلیم کریں کہ قوم نے باغی کو ووٹ دیا ہے اور ہم باغی کو ایک صوبے کا وزیر اعلیٰ بنا رہے ہیں، اس بات کو تسلیم کریں، پھر شرمانا کس بات کا ہے، جب ان سے سوال کیا گیا کہ کیا 2024 میں دوبارہ الیکشن دیکھ رہے ہیں تو انہوں نے کہا کہ اگر تو اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت ہے تو پھر کوئی فائدہ نہیں ایک اور سوال پر مولانا فضل الرحمٰن نے کہاکہ ہمیں مرکزی مجلس عاملہ فیصلے پر صوبائی جماعتوں کو اعتماد میں لینا تھا کیونکہ ہمیں اپنی پارٹی کے دستور کے لحاظ سے اختیار نہیں تھا کہ ہم یہ فیصلہ کر سکیں کہ ہم پارلیمانی سیاست کریں بھی یا نہیں، اگر پارلیمان یہ ہو تو پھر اس پارلیمان کی سیاست کرنے کا کیا فائدہ ہے، اس حوالے سے جنرل کونسل کے پاس اختیار ہے اور دیکھتے ہیں وہ کیا فیصلہ کرتی ہے، تاہم انہوں نے واضح کیا کہ جب تک ہم پارلیمان سے لاتعلقی کا اعلان نہں کرتے، اس وقت تک ہمارا پارلیمانی کردار جاری رہے گا، ان کا کہنا تھا کہ ہمارا صدارتی الیکشن کے حوالے سے اصولی فیصلہ ہے کہ ہم اس میں کسی قسم کے ووٹ میں حصے دار نہیں ہوں گے۔
4 تبصرے
مولانا ڈیزل کو فوج نے اوقات دکھا دی ہے
Kamina giri chal raha hai
ہوئے آقا فرنگیوں کے غلام
شبِ آلام ہو سکی نہ تمام
حکمراں ہو گئے کمینے لوگ
خاک میں مل گئے نگینے لوگ
ہر محبِ وطن ذلیل ہوا
رات کا فاصلہ طویل ہوا
بے حیائی کو جس نے اپنایا
وہی عزتِ مآب کہلایا
آمروں کے جو گیت گاتے رہے
وہی انعام و داد پاتے رہے
رہزنوں نے جو رہزنی کی تھی
رہبروں نے بھی کیا کمی کی تھی
ایک بار اور ہم ہوئے تقسیم
ایک بار اور دل ہوا دو نیم
یہ فسانہ ہے پاسبانوں کا
چاق و چوبند نوجوانوں کا
سرحدوں کی نہ پاسبانی کی
ہم سے ہی داد لی جوانی کی
اس کے باپ نے کہا تھا کہ ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شامل نہیں ہوئے جمعیت علما اسلام نصراللہ خان ، کاشمیری ، عطاالحق وغیرہ سب پاکستان کے خلاف تھے بعد میں انھوں نے فوجی مقتدری سے سازباز کرلیا اور آج پاکستان کیلئے تمنا کررہے ہیں کہ پاکستان تحلیل ہوجائے تو بتائیں پاکستان کو کون سا ملک قبول کرئے گا، بھارت میںدوبارہ شامل ہوتے ہیں تو وہ ہمیں ہزگز ایک مسلمان قوم کے ناطے قبول نہیں کرئے گا، غلاموں والی زندگی کیلئے تیار ہیں پاکستانی تو ملک کے خلاف بات کریں، کیا لوگ افغان مہاجرین کا حال بھول چکے ہیں۔