سپریم کورٹ میں مخصوص نشستوں کے معاملے پر سنی کونسل کی درخواست پر سماعت کے دوران جسٹس منصور علی شاہ نے الیکنش کمیشن کے وکیل سے کہا کہ الیکشن کمیشن نے کب کہاں بیٹھ کر فیصلہ کیا کہ انتخابی نشان نہیں ہو گا تو پی ٹی آئی سیاسی جماعت نہیں ہو گی؟ انھوں نے الیکشن کمیشن آف پاکستان سے اس فیصلے اور اس میٹنگ کا ریکارڈ طلب کرلیا، جسٹس منصور علی شاہ نے یہ بھی کہا کہ آپ نے بس انتخابی نشان نہ ہونے پر پی ٹی آئی کو الیکشن سے باہر رکھا؟ اس موقع پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اس کا مطلب ہوا کہ الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے فیصلے کی غلط تشریح کر کے میجر پارٹی کو الیکشن سے باہر رکھا اور اب انتخابی نشان کا فیصلہ دینے والا بینچ آپ کو خود بتا رہا ہے آپ کی تشریح غلط تھی، سماعت کے دوران چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے عدالت کو مہیا کیے گئے دستاویزات میں تنازع ہے، چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ انتخابی نشان نہ ملنے پر کسی امیدوار کا کیسے پارٹی سے تعلق ٹوٹ سکتا؟
دوران سماعت جسٹس منیب اختر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے امیدوار کو آزاد بنایا، الیکشن لڑا، پھر جماعت کے ساتھ منسلک ہونا چاہ رہے تو الیکشن کمیشن مذاق اڑا رہا ہے اور کہہ رہا ہے کہ کیسے شامل ہو سکتے؟ جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ آپ نے سنی اتحاد کونسل کے چئیرمین کو خود آزاد ڈیکلئیر کیا، آپ کے آزاد ڈیکلئیر کرنے پر وہ کامیاب ہو کر واپس اپنی ہی جماعت میں شامل ہوا اور اب آپ کہہ رہے ہیں سنی اتحاد کونسل کا چئیرمین خود کیسے اپنی جماعت میں شامل ہوا؟ جسٹس یحییٰ آفریدی نے الیکشن کمیشن کے وکیل سے سوال کیا کہ کیا الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کو مخصوص نشستیں دیں؟ جس پر وکیل سکندر بشیر نے جواب دیا کہ تحریک انصاف کو کوئی مخصوص نشست نہیں دی گئی، ججز نے ریماکس دیئے کہ الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کو انتخابات سے الگ کر دیا تھا، الیکشن کمیشن کو اختیار نہیں کہ کسی پارٹی کو انتخابات سے باہر کرے، عدالت نے الیکشن کمیشن کے وکیل کو تحریک انصاف کی مخصوص نشستوں کی لسٹ آج مہیا کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کیس کی سماعت یکم جولائی دن ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کر دی ہے۔