اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کمیٹی نے حکومت پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ فوجی عدالتوں سے متعلق قانون سازی کے خلاف فوری اقدامات کرے، شہریوں پر ان کا دائرہ اختیار ختم کرے، سزائے موت کے نفاذ کا اختیار ختم کرے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ ان کی کارروائیاں شہری اور سیاسی حقوق کے بین الاقوامی معاہدے (آئی سی سی پی آر) کی مکمل تعمیل کریں تاکہ منصفانہ ٹرائل کے حق کی ضمانت دی جا سکے، جمعرات کو جنیوا میں اختتام پذیر ہونے والے اپنے تازہ ترین جائزے میں پاکستان کے معاملے کا جائزہ لینے کے بعد اپنی رپورٹ جاری کرتے ہوئے اقوام متحدہ کی کمیٹی نے کہا کہ پاکستان کو فوجی عدالتوں کے دائرہ اختیار کے تحت زیر حراست تمام شہریوں کو ضمانت پر رہا کرنا چاہیے، کمیٹی نے فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے خلاف قانونی چارہ جوئی کے لئے پاکستان آرمی ایکٹ 1952 کے استعمال پر تشویش کا اظہار کیا، کمیٹی نے ان رپورٹس پر بھی روشنی ڈالی جن میں 2015 سے 2019 کے درمیان زیادہ تر مقدمات میں سزائے موت دی گئی، عدلیہ کی آزادی کے حوالے سے اقوام متحدہ کی کمیٹی نے پاکستان کے وفد کی جانب سے 26 ویں ترمیم اور اس کی منظوری کے عمل سے متعلق فراہم کردہ معلومات کو تسلیم کیا، تاہم اس نے ججز، پراسیکیوٹرز، وکلا، بار ایسوسی ایشنز اور سول سوسائٹی کے ساتھ پیشگی، وسیع اور شفاف مشاورت کے فقدان پر تشویش کا اظہار کیا۔
اقوام متحدہ کی کمیٹی نے پراسیکیوٹرز کی آزادی کو یقینی بنانے کے لئے قانونی فریم ورک اور ادارہ جاتی میکانزم، ان کی بھرتی، تقرری، تادیبی کارروائی اور برطرفی کے طریقہ کار کے بارے میں معلومات کی کمی پر افسوس کا اظہار کیا، کمیٹی نے سیاسی لحاظ سے حساس مقدمات، بدعنوانی، دہشت گردی اور توہین مذہب سے متعلق مقدمات سے متعلقہ ججز اور پراسیکیوٹرز کو غیر ریاستی عناصر سمیت مسلسل ہراساں کیے جانے، ڈرانے دھمکانے کی اطلاعات پر تشویش کا اظہار کیا، رازداری کے حق کے معاملے پر کمیٹی نے تشویش کا اظہار کیا کہ پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ حکام کو عدالتی توثیق اور مناسب نگرانی کے بغیر ذاتی ڈیٹا تک رسائی، اسے محفوظ رکھنے اور اسے غیر ملکی حکومتوں کے ساتھ شیئر کرنے کے لیے حد سے زیادہ وسیع اختیارات فراہم کرتا ہے۔