اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججز نے ججز کے کام میں خفیہ ایجنسیوں کی مداخلت اور دباؤ میں لانے سے متعلق سپریم جوڈیشل کونسل کو خط لکھ دیا ہے، اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس طارق محمود جہانگیری، جسٹس بابر ستار، جسٹس سردار اعجاز اسحٰق خان، جسٹس ارباب محمد طاہر اور جسٹس سمن رفت امتیاز کی جانب سے لکھا گیا ہے، خط میں کہا گیا ہے کہ ہم بطور اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز سپریم جوڈیشل کونسل سے ایگزیکٹیو ممبران بشمول خفیہ ایجنسیوں کے ججز کے کام میں مداخلت اور ججز کو دباؤ میں لانے سے متعلق رہنمائی چاہتے ہیں، خط میں کہا گیا ہے کہ یہ معاملہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے نتیجے میں سامنے آیا جس میں سپریم کورٹ کی جانب سے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی سال 2018 میں برطرفی کو غلط اور غیر قانونی قرار دیا گیا اور کہا گیا ہے کہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو ریٹائرڈ تصور کیا جائے گا۔سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو اس وقت برطرف کر دیا گیا تھا جب ان کی جانب سے یہ الزام عائد کیا گیا تھا کہ خفیہ ایجنسی کے اہلکاروں نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں بینچز کی تشکیل اور احتساب عدالت اسلام آباد میں مقدمات کے ٹرائل میں مداخلت کرتے ہیں، خط کے مطابق ان الزامات کے بعد اس وقت کی وفاقی حکومت اور آرمی چیف کی جانب سے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے خلاف شکایات دائر کی گئی تھیں۔
خط میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے اپنے حالیہ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی جج کو سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے تحقیقات کیے بغیر برطرف نہیں کیا جا سکتا، سپریم کورٹ نے اپنے حالیہ فیصلے میں جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی کو بدنیتی پر مبنی قرار دیا ہے، خط کے مطابق سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے سے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے موقف کی جیت ہوئی ہے تاہم غیر قانونی برطرفی کا ازالہ ممکن نہیں، کیا اس وقت واقعی خفیہ ایجنسی کے اہلکار عدالتی معاملات میں مداخلت کر رہے تھے؟ اس کا جواب نہیں مل سکا ہے، اگر خفیہ ایجنسی کے اہلکار واقعی عدلیہ کی آزادی کو مجروح کرنے میں ملوث تھے تو کیسے ان کو احتساب کے کٹہرے میں کھڑا کیا جا سکتا ہے تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات رونما نہ ہوں، خط میں کہا گیا ہے کہ ججز کا موجودہ کوڈ آف کنڈکٹ اس حوالے سے رہنمائی کرنے سے قاصر ہے کہ ججز کی جانب سے خفیہ اداروں کے اہلکاروں کی جانب سے عدلیہ کی آزادی کو مجروح کرنے کا کا کیا ردعمل دیا جائے، ہم سمجھتے ہیں کہ اس بات کی تحقیقات انتہائی اہم ہیں کہ کیا ریاست کی جانب سے عدلیہ کے کام میں مداخلت کی پالیسی اب بھی جاری ہے جس پر خفیہ ایجنسی کے اہلکار عمل درآمد کرواتے ہیں؟ ججز کی جانب سے لکھے گئے خط میں اسلام آباد کی عدلیہ کو خفیہ ایجنسیوں کی جانب سے درپیش دھمکی امیز واقعات کا بھی ذکر کیا گیا ہے، چیف جسٹس کی جانب سے کہا گیا کہ انہوں نے خفیہ ایجنسی کے حکام سے بات کی ہے جنہوں نے یقین دہانی کرائی ہے کہ ایجنسی کی جانب سے سرکاری سطح پر ججز سے کبھی رابطہ نہیں کیا جائے گا تاہم خفیہ ایجنسی کی جانب سے مداخلت جاری رہی۔
4 تبصرے
The rule of justice has ended in Pakistan and the one who carried the flag of justice is imprisoned in Adiala Jail
ججز نے تو کمال کردیا ایسی طرح پاکستان میں تمام اداروں کے اندر سے افراد نکلیں تو پاکستان کامیابی کے سفر پر چل نکلے گا
ججز نے پہلی مرتبہ فوجی مداخلت کے خلاف آواز نہیں بلند کی ہے لیکن اِن ججز نے اصل مسئلہ کو کھل کر بیان کردیا ہے یہ کارنامہ ہے اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 چھ کا اللہ تعالی اِن کی حفاظت کرئے۔
حکومت ججوں کو انصاف نہیں دے گی کیونکہ بعض ججوں نے نواز خاندان کو انصاف سے ہٹ کر ریاعتیں دی ہیں ، ججز اپنے ساتھی ججز جو گناہ گار ہیں ان کے خلاف علم بغاوت بلند کریں۔