پاکستان کی ڈوبتی معیشت کے دوران اسٹیٹ بینک نے اعلان کیا ہے کہ غیر ملکی ذرمبادلہ کے ذخائر کو مستحکم رکھنے کیلئے گزشتہ 7 ماہ کے دوران انٹر بینک مارکیٹ سے 2 ارب ڈالر خریدے ہیں، ذرائع کے مطابق انٹر بینک مارکیٹ سے ڈالرز کی خریداری ذرمبادلہ کے ذخائر کو آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق مخصوص سطح پر رکھنے میں بھی معاون رہی، ذرائع کا کہنا ہے کہ ڈالرز کی زیادہ تر خریداری گزشتہ چند ماہ کے دوران کی گئی ہے، جس کی بنیادی وجہ بیرونی قرضوں کے حصول میں درپیش مشکلات ہیں، اگر ڈالرز نہ خریدے جاتے تو ذرمبادلہ کے ذخائر 6 ارب ڈالر سے گر جاتے اور روپے کی قدر میں گراوٹ شروع ہوجاتی، ذرائع نے مزید بتایا کہ اسٹیٹ بینک فارورڈ سوئنگ پوزیشن کو دسمبر تک 3.45 ارب ڈالر تک کم کرنے کا آئی ایم ایف کا دیا گیا ہدف پورا کرچکا ہے، یہ قلیل المدتی قرضے پہلی ششماہی کے دوران 3.42 ارب ڈالر رہے، جوکہ آئی ایم ایف کے ہدف سے تھوڑا سے بہتر ہے۔
اس کے علاوہ اسٹیٹ بینک آئی ایم ایف کی این آئی آر سے متعلق دی گئی شرط کو بھی پورا کرچکا ہے، دسمبر تک ذرمبادلہ کے ذخائر کو 8.2 ارب ڈالر سے زیادہ رکھنے کی شرط بھی پوری کی گئی ہے، تمام کامیابیوں کی بنیادی وجہ انٹر بینک مارکیٹ سے ڈالرز کی خریداری رہی ہے، اسٹیٹ بینک کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق حکومت نے رواں مالی سال کی پہلی ششماہی کے دوران 3.2 ارب ڈالر کے غیر ملکی قرضے ادا کیے ہیں، جبکہ چین اور سعودی عرب سے 4 ارب ڈالر کا رول اوور حاصل کیا ہے، اس کے باجود پاکستان کے بیرونی قرضے دسمبر تک بڑھ کر 131.2 ارب ڈالر ہوچکے ہیں، واضح رہے اسٹیٹ بینک نے روپے چھاپ کر کمرشل بینکوں سے قرضے تو حاصل کرلئے مگر اس کی وجہ سے مہنگائی 35 سے 40 فیصد بڑھ گئی جس نے غریب کا جینا مشکل بنادیا ہے۔