تحریر: محمد رضا سید
امام حسینؑ نواسہ رسولؐ ہی نہیں ازرو قرآن فرزند رسولؐ بھی ہیں، رسولؐ اسلام نے اِن کا مختلف مواقعوں پر بھر پور تعارف کرایا تاکہ اُمت محمدیؐ کے پاس امام حسینؑ کو چھوڑنے کا کوئی جواز باقی نہ رہ سکے، تاریخ کی ستم ظریفی دیکھیں امام حسینؑ جیسی ہستی موجود ہونے کے باوجود بنو اُمیہ کے ایک لڑکے کی بیعت لی جانے لگی اور اُس وقت کے بہت سے صاحب بصیرت لوگوں نے اس بیہودہ کردار لڑکے کی بیعت کرلی اور بیعت لینے والے سے نہیں کہاکہ امام حسین ؑ کے ہوتے ہوئے، بندروں سے کھیلنے والے کو کس طرح ہم اپنے اوپر مسلط کرلیں، یزید لعین کے برسراقتدار آنے کے بعد کچھ ایسے بدبخت بھی تھے جنھوں نے امام حسین ؑ سے سوال بیعت کرلیا، یوں امام حسینؑ نے اسلام کی زندگی کیلئے اپنا اور اپنے اہل خانہ و ساتھیوں کا خون دینے کا فیصلہ کیا، کربلا ایک بیابان زمین تھی وہ امام حسینؑ کی نسبت سے معلیٰ قرار پائی، فرزند رسولؐ اور آل رسولؐ پر پانی بند کیا گیا وہ بچوں کی پیاس سے نفسیاتی دباؤ ڈالا گیا تاکہ اسلام کو دوبارہ زندہ کرنے کا عمل سے رُک جائے، مختصر یہ کہ یزیدیوں کے تمام حربے ناکام رہے اور خون حسینؑ سے اسلام نے زندگی پائی، اس کرہ ارض پر بنام اسلام جو کچھ باقی ہے وہ خون حسینؑ کا مرہون منت ہے، عمومی طور پر میں اشعار کا سہارا نہیں لیتا لیکن سچائی کیساتھ الفاظوں کی بندش اور حق پر مبنی اشعار انسانی ضمیر کی تازگی کیلئے خوشگوار اثرات کے مرتب کرنے کا وسیلہ ہوتے ہیں، مثال کے طور پر خواجہ معین الدین چشتی ؒ اجمیری کی رباعی اس متن میں خوبصورت اضافہ ثابت ہوگا۔
شاہ است حسین، بادشاہ است حسینؑ
دین است حسین، دین پناہ است حسینؑ
سر داد، نداد دست درِ دست یزید
حقا کہ بنائے لا الہ است حسینؑ
ایک اور شعر جو خلافت تحریک کے روح رواں مولانا محمد علی جوہر نے عطا کیا وہ بھی متذکرہ عنوان سے بڑی حد تک مطابقت رکھتا ہے، جس کا فیض اس متن کو طاقت فراہم کرئے گا۔
قتلِ حُسین اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
امام حسینؑ کی شہادت کے بعد کی تاریخ کا سرسری جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ یزید لعین کی حکومت کی چولیں ہل گئیں اور عالم اسلام میں امام حسینؑ کی شہادت کی اثر پذیری اتنی گہری ہوئی کہ بنام امام حسینؑ اسلام کا روشن ترین چہرہ سامنے آگیا، بنوامیہ کا بتایا اور پڑھا گیا اسلام مسلمانوں کے دلوں سے باہر ہوا اور حسینیؑ اسلام ہر مسلمان کے دل میں جاگزین ہوگیا لیکن اسلام کی حیات میں کربلا کا ہونا ہر زمانے کیلئے اہمیت رکھتا ہے۔
امام حسین علیہ السلام کی کربلا کے میدان میں شہادت کا واقعہ انتہائی غیر معمولی تھا، جس نے اُس وقت بھی اسلام کے جسم میں روح فروزاں کی اور آج بھی ظالم قوتوں کے سامنے ڈٹ جاننے کیلئے اہم محرک بناہوا ہے، چاہے ہم اپنے وطن کی مذموم سیاست پر نظر ڈالیں یا کربلائے غزہ کو دیکھیں، غزہ کے مظلوموں کیلئے آج بھی حسینیؑ کردار نمونہ بناہوا ہے، فلسطین میں حسینؑ شناسی اس طرح نہیں تھی جس طرح لبنان ، شام میں ہے لیکن جب وہ حسینیؑ افکار اور کردار کی طرف متوجہ ہوئے تو آج وہ خطے کی سپرطاقت کو سرنگوں کرنے کے عمل سے گزر رہیں ہیں، حماس اور اسلامی جہاد میں فلسطینیوں کی مختصر تعداد ہے کوئی باقاعدہ فوج نہیں وسائل جنگی نہیں لیکن کربلائے معلیٰ سے متاثر یہ فلسطینی اسرائیلی فوج کی طاقت کا غرور خاک میں ملا رہے ہیں، اسرائیلی فوج اعتراف کررہی ہے کہ حماس ایک نظریہ ہے جسے ختم نہیں کیا جاسکتا۔
غزہ کی صورتحال کا جائزہ لین تو کئی مماثلتیں یزیدی ظلم کو عیاں کرتی ہیں، اسرائیل نے غزہ کے فلسطینیوں کا کھانا پانی بند کررکھا ہے، طبی سہولتوں سے محروم کیا ہوا ہے، بچے بھوک اور پیاس کی شدت سے جاں بحق ہوگئے ہیں، اسرائیلی فضائیہ بچوں اور عورتوں کو امریکہ کے دیئے ہوئے خطرناک بمبوں سے نشانہ بنارہی ہے، بمباری سے حاملہ خواتین قبل ازوقت بچوں کے پیدائشی عمل سے گزر رہی ہیں، آج بالکل واضح ہے کہ اسرائیل یزیدی کردار ادا کررہا ہے جبکہ پوری امت اسلامیہ بالکل سنہ 61ھ کی طرح خاموش ہے اور فلسطینی حماس ، لبنانی حزب اللہ، یمنی انصار اللہ ، عراقی حشدالشعبی اور ملکوں میں ایران اور کسی حد تک قطر اور ترکیہ سنت شبیری ادا کررہے ہیں جبکہ عالم اسلام کے اکثر ممالک بے روح ہوچکے ہیں ، جس وقت غزہ میں ہزاروں کی تعداد میں مسلمان شہری شہید ہو رہے تھے اُس وقت حرمین شریفین کے خادمین اپنے ملک سعودی عرب میں رقص و سرور کی محفلیں جمارہے تھے جس نے ہر حسینیؑ مسلمان کے دل چھلنی کردیئے ہیں۔