عمران خان نے آئی ایم ایف کو خط لکھا دیا ہے، جس پر حکومت لینے والی سیاسی جماعتیں رنجیدہ ہیں اور عمران خان کے اس اقدام کو ملک دشمنی قرار دے رہی ہیں جبکہ عوامی رائے عامہ خوشی کا اظہار کررہی ہے، مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی عمران خان کے آئی ایم ایف کو لکھے خط کو ملک دشمنی سے تعبیر کررہی ہیں، بلاول بھٹو نوجوان سیاسی رہنما کے طور پر ایک بڑی جماعت کی سربراہی کررہے ہیں، مجھے یقین ہے محترمہ بے نظیر بھٹو زندہ ہوتیں تو بلاول اپنی پڑھائی مکمل کرنے کے بعد پارٹی کے ایک کارکن ہوتے ممکن ہے محترمہ کی وجہ سے وہ پیپلزپارٹی کے بلدیاتی کونسل کے چیئرمین ہوتے اور پھر آہستہ آہستہ وہ صوبائی سطح کی سیاست کرتے پھر انہیں ملکی سطح کی سیاست میں لایا جاتا ہوسکتا ہے کہ اس تربتی عمل کے بعد وہ عوام کی خیرخواہی بھی کرتے مگر بے نظیر کو قتل کرایا گیا اور ماضی میں بدعنوانی کا بوجھ اُٹھائے اُن کے والد نے بیٹے کو بَلی کا بکڑا بناکر اُسے طوطا بنادیا، بنیادی سیاست سے ناواقف بلاول بھٹو کو نواز شریف اور فضل الرحمٰن جیسے تجربہ کار عیار سیاستدانوں کی صحبت ملی اور والد تو پہلے ہی ماشا اللہ اور سبحان اللہ مسٹر 10 پرسنٹ تو محترمہ بے نظیر بھٹو کے دور میں بن چکے تھے، اب وہ مسٹر 50 پرسنٹ بنکر اپنے بیٹے کی پرورش کرنے لگے، انصاف کی بات یہ ہے کہ بلاول بھٹو زرداری کو ماحول اچھا نہیں ملا حالانکہ بیچارے اعتزاز احسن بلاول بھٹو کو عیاروں کی صحبت سے بچانے کیلئے کوششیں کرتے رہے مگر انہیں زرداری کی نفرت کا سامنا کرنا پڑا، بلاول بھٹو نے عمران خان کی جانب سے آئی ایم ایف کو لکھے گئے خط کو پسند نہیں کیا اور اسے غیر سیاسی اقدام قرار دیا واقعی عمران خان کا آئی ایم ایف کو خط لکھنا کرپٹ سیاستدانواں اور بیت المال پر عیاشیاں کرنے والے ادارے اور حکام کو عمران خان کی یہ بات پسند نہیں آئے گی۔
پاکستان کی 90 فیصد غریب عوام سے پوچھا جائے تو وہ عمران خان کے آئی ایم ایف کو لکھے خط پر خوشی کا اظہار کریں گے کیونکہ حکومتیں عیاشیوں، کرپشن، قومی دولت کی بندر بانٹ اور اقرابا پروری کرکے لیا گیا بیرونی قرضہ تمام کردتی ہیں اور سود سمیت قرضہ عوام کو بھاری ٹیکسوں اور مہنگائی کی صورت میں ادا کرنا ہوتا ہے، واضح رہے کہ آئی ایم ایف کا قرضہ ترقیاتی منصوبوں کیلئے نہیں ہوتا بلکہ اس قرض سے حکومتوں کے اخراجات پورے کئے جاتے ہیں، ورلڈ بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک ترقیاتی منصوبوں کیلئے قرضہ دیتی ہیں، یہ قرضہ پاکستانی عوام کے مفاد کے منصوبوں کیلئے ہوتا ہے، ورلڈ بینک اپنی رپورٹس میں پاکستان کیلئے اچھی حکمرانی کا تقاضہ کرتی رہی ہے، ورلڈ بنک کا ہمیشہ شکوہ رہا ہے کہ قرض کی رقم شفاف طریقے سے خرچ نہیں ہوئی، ورلڈ بینک کا سندھ حکومت سے شکوہ تو سو فیصد درست ہے، سندھ کے دیہی علاقوں کے منصوبوں میں 70 سے 80 فیصد کرپشن ہوتی ہے، نہری نظام کو درست کرنے کیلئے عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک کے اکثر منصوبے بااثر افراد کی زمینوں کو پانی پہنچانے کیلئے ہوتے ہیں جو اسمبلیوں میں جعلی مینڈیٹ کے ذریعے پہنچتے ہیں اور یہی بااثر لوگ اسمبلیوں میں بیھٹکر زرعی ٹیکس لگانے کی مخالفت کرتے ہیں
ورلڈ بینک کی جانب سے اسپانسر کیے جانے والے6.7 ارب ڈالر مالیت کے نصف سے زائد وفاقی منصوبوں پر پیش رفت غیر تسلی بخش ہے جب کہ ورلڈ بینک نے اپنی رپورٹ میں ان منصوبوں پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے منصوبوں پر پیش رفت کو غیر تسلی بخش قرار دے دیا ہے، یہ رپورٹ اکتوبر 2023ء میں جاری کی گئی، ورلڈ بینک نے وزارت معاشی امور کے ساتھ مل کر 6.7 ارب ڈالر کے20 منصوبوں کا جائزہ لیا ہے، حکام کے مطابق جائزے میں انکشاف ہوا ہے کہ صرف 2.9 ارب ڈالر کے منصوبے ٹریک پر پائے گئے ہیں،3.4 ارب ڈالر کے منصوبوں پر پیش رفت جزوی طور پر اطمینان بخش پائی گئی ہے جبکہ 453 ملین ڈالر کے منصوبوں کو مسائل کا شکار قرار دیا گیا ہے، سب سے زیادہ بے قاعدگیاں واپڈا کے محکمے میں پائی گئی ہیں، جس پر دہائیوں سے ریٹائرڈ جرنیل حکمرانی کر رہے ہیں، اس کے علاوہ نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈسپیچ کمپنی، ایف بی آر، وزارت منصوبہ بندی، وزارت خزانہ اور اسٹیٹ بینک سے متعلق منصوبے بھی مسائل کا شکار ہیں، جس کی وجہ سے ان منصوبوں سے حاصل ہونے والے فوائد میں تاخیر ہوئی ہے، رپورٹ کے مطابق پاکستان نے رواں سال جولائی میں بلوچستان میں سیلات متاثرین کی بحالی کیلیے ورلڈ بینک سے 213 ملین ڈالر کا قرضہ لیا تھا لیکن تاحال پراجیکٹ منیجمنٹ یونٹ غیر فعال ہے اور فنڈز وصولی کیلیے کوئی بینک اکاؤنٹ بھی نہیں کھولا گیا ہے، جس کی وجہ سے ابھی تک ورلڈ بینک سے ایک پائی بھی وصول نہیں کی جاسکی ہے۔
کسی بھی ملک کی ترقی کیلئے اچھی حکمرانی شرط ہے جب قوم کے مینڈیٹ پر ڈاکہ ڈال کر حکومتیں بنائی جائیں تو کرپشن اور نااہلی اسکا لازمہ ہوتا ہے، قرضوں کی رقم کے درست استعمال کیلئے اچھی حکومت کے اُصول کو یاد دلانے کیلئے عمران خان نے آئی ایم ایف کو خط لکھا ہے جو زمینی حقائق کی روشنی میں درست اقدام ہے، پاکستان میں لائی جانے والی مسلم لیگ(ن)، پیپلزپارٹی اور ایم کیوایم کو 9 فروری کو آر اوز نے مینڈیٹ دیا جبکہ عوام نے 8 فروری کو اپنا ووٹ پاکستان تحریک انصاف کو دیا تھا، چوری کے مینڈیٹ رکھنے والی جماعتوں کو طاقت کے بل بوتے پر حکومت دی جارہی ہے اُن کی جڑوں میں کرپشن اور نااہلی بیٹھی ہوئی ہے، عوام کو یہ بات سمجھنی ہوگی کہ قرضہ لینے والی کرپٹ حکومتوں اور اداروں کا بوجھ بلآخر اُن کے کاندھوں پر پڑے گا، بلاول بھٹو، مریم نواز اور اِن کے خاندانوں کے پاس دولت بھی ہے اور بیرون ملک منتقل ہونے کا آپشن بھی ہے، عوام کے پاس ایسا کوئی آپشن نہیں ہے سوائے بجلی، گیس،موبائل بیلنس کی مدد میں ہر ماہ ہزاروں کا ٹیکس ادا کرنا،ملک کی 24 کروڑ عوام تو ٹیکس دے رہی ہے مگر جاگیردار زرعی ٹیکس دینے سے گریراں ہیں، عمران خان کا آئی ایم ایف سے مطالبہ درست ہے اور اسکی عوام کھلے الفاظ میں حمایت کریں اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو ایسا لیڈر عطا کیا ہے جو عوام کیلئے سوچتا ہے۔
2 تبصرے
عمران خان بہت بڑا لیڈر ہے یہ عوام کو قرضوں کے بوجھ سے نجات دلانا چاہتا ہے، حکمرانی اچھی بنانے سے ہمیں قرضہ نہیں لینا پڑے گا، پیپلزپارٹی نے اپنے ووٹرز کو اسٹیل مل میں بھرتی کرایا اور یہ ادارہ تباہ ہوگیا، اسی طرح پی آئی اے کی بد حالی میں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ کا ہاتھ ہے
عمران خان نے عوام کی طرف سے آئی ایم ایف کو خط لکھا ہے، ہم سب پاکستانی عمران خان کے خط سے متفق ہیں، زرداری اور نوازشریف کی عیاشیوں کیلئے کیوں قرض لیا جائے، اگر آئی ایم ایف قرض دیتی ہے تو قرض وصولی بھی ان سے کرئے جو ان کے دیئے قرضے کو استعمال کرتے ہیں