پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ نے پیر کو گوادر میں مظاہرہ کرنے والوں کو مذاکرات کی دعوت دی ہے جس پر بلوچ یکجہتی کمیٹی کا کہنا ہے کہ حکومت مذاکرات کی بات کرتی ہے اور فائرنگ بھی کرتی ہے، وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی نے پیر کو صوبائی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حکومت پھر سے اعلان کرتی ہے ہمارے مذاکرات کے دروازے کھلے ہیں۔ ہم تیار بیٹھے ہیں، آئیں اور ہم سے بات کریں اس حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ جو دوست اپوزیشن میں سے کردار ادا کرنا چاہتے ہیں آجائیں، ہم ان کو کردار بتاتے ہیں وہ جائیں اور ادا کریں، وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی نے احتجاجی مظاہرے کے حوالے سے کہا ہے کہ جتھوں کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دیں گے، ان کا کہنا تھا کہ ’کسی کو پرتشدد احتجاج کی اجازت نہیں دیں گے، دوسری جانب بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنما بیبرگ بلوچ کا کہنا ہے کہ ’ہم نے مذاکرات کا خیرمقدم کیا ہے۔ ہم بھی مذاکرات کرنا چاہتے تھے، بیبرگ بلوچ نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ایک طرف تو مذاکرات کی بات کی جاتی ہے اور دوسری جانب پرامن احتجاج پر فائرنگ کی جاتی ہے، انہوں نے کہا کہ آج احتجاج پر دھاوا بولا گیا اور ہماری تمام اعلیٰ قیادت کو حراست میں لیا گیا ہے۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنما بیبرگ بلوچ کے مطابق سمی دین بلوچ اور ڈاکٹر صبغت اللہ شاہ سمیت متعدد رہنماؤں کو حراست میں لیا گیا ہے، انہوں نے کہا کہ یہ دھرنا جاری رہے گا اور بلوچستان کے مختلف مقامات پر بھی احتجاج کیا جائے گا، جب تک ہمارے ساتھیوں کو رہا نہیں کیا جاتا، بیبرگ بلوچ نے یہ بھی الزام عائد کیا کہ انہیں ’ہسپتالوں تک رسائی نہیں دی جا رہی ہے جس کی وجہ سے انہیں زخمی یا جان سے جانے والوں کی تعداد کا علم نہیں ہو پا رہا ہے۔