بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے زیرِ اہتمام بلوچ راجی مچی یعنی بلوچ قومی اجتماع کو دو مطالبات کے تسلیم ہونے تک دھرنے میں تبدیل کر دیا گیا ہے، گوادر میں میرین ڈرائیو پر ہونے والے اس اجتماع میں رکاوٹوں کے باوجود شرکت کے لئے خواتین سمیت ہزاروں افراد پہنچے ہیں، یہ جلسہ اتوار کو رات گئے تک جاری رہا جس سے ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ، سمیت دین بلوچ، صبغت اللہ شاہ اور دیگر مقررین نے خطاب کیا، بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا کہ پہلے قومی اجتماع ایک جلسے کی صورت میں صرف ایک دن کے لئے منعقد ہونا تھا لیکن مبینہ ریاستی جبر کے باعث دو مطالبات کے تسلیم ہونے تک اسے گوادر میں دھرنے میں تبدیل کیا جا رہا ہے، ان مطالبات میں اس اجتماع کے حوالے سے گرفتار کیے گئے تمام افراد کی رہائی کے علاوہ اجتماع میں شرکت کے خواہشنمد افراد کی راہ میں رکاوٹیں نہ ڈالنا شامل ہیں، کمیٹی نے حکومت کو ان مطالبات کو تسلیم کرنے کے لئے 48 گھنٹے کی مہلت دی ہے اور کہا ہے کہ اگر مطالبات تسلیم نہیں کیے گئے تو دھرنا اسی مقام پر غیر معینہ مدت کے لئے جاری رہے گا۔
دوسری جانب گوادر جانے کے لئے جن قافلوں کو روکا گیا تھا اُن کی جانب سے انہی مقامات پر دھرنے جاری ہیں جہاں اُنھیں روکا گیا ہے، کوئٹہ سے جانے والا قافلہ بدستور چالیس کلومیٹر دور مستونگ کے علاقے میں موجود ہے اور اس کے شرکا کوئٹہ کراچی ہائی وے پر موجود ہیں، مستونگ میں دھرنے میں موجود بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنما بیبرگ بلوچ نے بتایا کہ مرکزی فیصلے کے مطابق گوادر میں دھرنا جاری ہے، اتوار کی شب گوادر میں اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے کہا کہ گوادر میں اس بلوچ قومی اجتماع کو روکنے کے لئے ریاست نے طاقت کا بھرپور استعمال کیا لیکن آج پورے بلوچستان میں بلوچی قومی اجتماع منعقد ہو رہے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ ’گوادر کے گلی کوچے میں فورسز کو تعینات کرکے یہ کوشش کی گئی کہ لوگ نہیں نکلیں لیکن گوادر کے خواتین اور مرد بڑی تعداد میں نکل کر ریاستی اداروں کو بتا دیا کہ ان کا جبر کسی طرح قبول نہیں، ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے کہا کہ عالمی قوتوں اور حقوق انسانی کی بین الاقوامی تنظیموں کو چائیے کہ وہ بلوچستان میں حقوق انسانی کی پامالیوں کا نوٹس لیں۔