تحریر: محمد رضا سید
سائفر کیس انجام کو پہنچا مگر طاقتور حلقے عمران خان کو آزاد کرنے کے موڈ میں نہیں ہیں،ویسے تو پاکستان میں طاقتوروں کے سامنے کھڑے ہونیوالوں کو انصاف ملنا اتنا آسان نہیں ہوتا، ابھی تو پاکستان کے مقبول ترین عوامی لیڈر کو آزادی کیلئے ایک بڑی جنگ لڑنا باقی ہے، عمران خان بھی اپنی آزادی سے زیادہ ملک کو غیر آئینی قوتوں کے سیاسی کردار سے آزاد کرانے میں دلچسپی رکھتے ہیں، سیاسی، سماجی، معاشی سطح پر اور نظام انصاف سے کھلونے کی طرح کھیلنے والے چند طاقتوروں کے ہاتھوں سے اختیارات چھین کر عوام کے سپرد کرنے کی جدوجہد معمولی عملیات سے کامیاب نہیں ہوتی ہے بلکہ اسکے لئے قربانیوں کی ضرورت ہوتی ہے، اس حوالے سے تاریخی تسلسل کا مطالعہ کرنے سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے حالات کو جوں کا توں رکھنے والی طاقتور قوتیں اپنے اختیارات سے دستبردار ہونے کیلئے آسانی سے تیار نہیں ہوتیں اور اس کیلئے وہ عوام کا خون بہانے سے بھی گریز نہیں کرتے، 9 مئی کے المیے کے بھی دو پہلو ہیں ایک یہ کہ فوجی تنصیبات پر حملے ہوئے اور پنجاب میں پہلی مرتبہ آئینی عسکری قوتوں کے خلاف فضاء پیدا ہوئی جبکہ اسکا ایک پوشیدہ پہلو یہ ہے کہ اِن واقعات کے نتیجے میں بہت سے بیگناہ افراد مارے گئے بلکہ پورے ملک کی فضاء مکدر بن گئی جسکے اثرات اب بھی باقی ہیں اور نہ جانے کب تک اسکے مذموم اثرات کا قومی اداروں اور ملک کو سامنا کرنا پڑے گا، بحیثیت مسلمان خوف اور مایوسی اسلام کی حقیقی تعلیمات انحراف ہے، حق کیساتھ کھڑے ہونا ہر کلمہ گو کیلئے لازمی قرار دیا گیا ہے لیکن تاریخ یہ بتاتی ہے کہ مسلمان سلاطین اور ملوکیت کے سامنے تسلیم ہوئے ہیں، اگر مسلمان سنہ 60 ہجری میں کھڑے ہوجاتے تو اور نواسہ رسولؐ کا ساتھ دیتے تو مسلم اُمہ کو وہ نقصان نہیں پہنچتا جو بعد کے سالوں میں پہنچا نہ مکے پر چڑھائی ہوتی اور نہ مدینہ تاراج ہوتا، جتنا ظالم کو موقع دیا جاتا ہے اتنی ہی قربانیوں کی ضرورت پڑتی ہے، واقعہ کربلا ایک ایسی مثال ہے جو ابھی تک حریت پسندوں اور غلامی سے آزادی کا سفر کرنے والوں کیلئے مشعل راہ ہے۔
پاکستان کی سیاست میں عمران خان جیسی سیاسی شخصیت کا کھڑا رہنا پاکستان کیلئے معجزے سے کم نہیں ہےجو انتہائی سخت حالات میں بھی نظریاتی سیاست سے دستبردار ہونے کیلئے تیار نہیں ہیں ، موجودہ سیاسی حالات میں عمران خان نے جس استقامت کا اظہار کررہے ہیں وہ اس صدی کی ملکوتی شخصیت حضرت امام خمینیؒ سے معارفانہ عقیدت فیص کا ہے، عمران خان نے اپنی متعدد تقاریر میں امام خمینیؒ کی عظیم اسلامی تحریک کا حوالہ دیا اور اسلامی انقلاب برپا کرنے پر خراج تحسین پیش کیا ، دنیا اور پاکستان کے طاقتور حلقے خواب میں بھی تصور نہیں کرتے تھےکہ اس خطے میں ایک بار پھرقومی آزادی کی عظیم تحریک اس بھرپور انداز سے جنم لےگی کہ سامراج کے قائم کردہ نظام کو الٹ پلٹ کردے گی، پاکستان کے عوام کاقومی شعور اتنا بلند ہوچکا ہے کہ وہ بازی گری کے سمجھنے لگے ہیں، قومی سلامتی اور معیشت کے بہانے سمجھ چکے ہیں اور اداروں کے وقار کی بحالی کو آئین پر عمل کرنے سے مشروط سمجھتے ہیں، فروری 2924ء میں یہی عوامی شعور تھا جس نے سامراج کے قائم کردہ نظام کو اُکھاڑ کر پھینک دیا، آج کوئی ذی شعور شخص یہ کہتا نہیں سنائی دے گا کہ الیکشن میں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن) کے ارکان کو عوام نے منتخب کیا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ سیاسی حرکیات کی حامل قوتیں اکٹھا ہوکر عمران خان کے خلاف سرگرم ہیں جبکہ پاکستان کا نظام انصاف گذشتہ دو سالوں میں غیر سیاسی قوتوں کی مداخلت کی بناء پر دنیا میں مذاق بن چکا ہے تاہم مایوسی اس لئے بھی نہیں ہے کہ عدالتی مناصب پر اب بھی ایسے عدالت شناس ججز بھی ہیں جو حکم اذاں دے رہے ہیں لیکن بعض ایسے بھی ہیں جن کے اندر قاضی شریح کی روح حلول ہونے کے فلسفہ صادق آتا ہے، جو انصاف کے بجائے ذاتی جذبات کو فوقیت دے رہے ہیں، سائفر کیس میں عمران خان خان اور شاہ محمود قریشی کی بریت سے کم ازکم یہ بات تو ثابت ہوئی کہ امریکی مداخلت پر مبنی پاکستانی سفارت کا سائفر ایک حقیقت تھی اور اسے لیک کرنے کے الزام پر عالمی سامراج اور اس کے گماشتے عمران خان کو عبرت کا نشان بنانا چاہتے تھے سائفر کیس سے چلنے کی وجہ سے ایک اور حقیقت تو کُھل کر سامنے آگئی کہ امریکہ نے عمران خان حکومت کو معزول کرانے کیلئے پاکستان کے طاقتور حلقوں کی پشت پناہی پر مبنی کردار ادا کیا تھا۔
امریکہ کو عالمی سطح پر جس رسوائی کا سامنا امام خمینیؒ کی انقلابی تحریک سے شروع ہوا تھا وہ اب بھی برقرار ہےامام خمینیؒ امریکی استعماریت اور استکباریت کا چہرہ بے نقاب کیا تو اب تک اسکا سلسلہ جاری ہے غزہ میں اسرائیلی جارحیت کی پشت پناہی نے مسلمانوں پر امریکی مکاری کا پول کھول دیا ہے، امام خمینیؒ نے 1977ء سے 1979ء کے دوران امریکہ اور برطانیہ کے مذموم کرادار کی بناء پر امریکہ کو بڑا شیطان اور برطانیہ کو چھوٹا شیطان قرار نہیں دیا تھا بلکہ امام خمینی نے امریکہ کو اُس وقت للکارا تھا جب ایران میں امریکی شہریوں کو ایرانیوں سے زیادہ حقوق حاصل تھے، امام خمینیؒ نے ایران میں اسلامی انقلاب برپا کرنے کا دہائیوں پہلےجس وقت عمل شروع کیا تھا تو اپنے ایک انٹرویو کے دوران نامہ نگار کے اس سوال پر کہ شاہ ایران طاقتور فوج رکھتا ہے اس کے پیچھے امریکہ اور خطے کے عرب ممالک ہیں آپ کے پاس تو کوئی فوج نہیں تو امام خمینیؒ نے برجستہ جواب دیا کہ اسلامی انقلاب کیلئے مجھے جو طاقت چاہیئے ہے وہ ابھی ماؤں کی گود میں تربیت کے عمل سے گزر رہے ہیں۔
امریکہ پاکستان میں عوامی شعور کی بیداری سے شدید خوفزدہ ہے اور اس شعور کو بیدار کرنے کیلئے عمران خان نے 22 سال میں ایک ایسی نسل تیار کی ہے جو کم ازکم یزید کی بعیت کرنے کو کبھی تیار نہیں ہوگی، امام خمینیؒ کی ملکوتی اور دیومالائی شخصیت کا دنیا بھر کے انسانوں پر ایک اثر یہ پڑا ہے کہ اُنھوں نےظلم کے خلاف مزاحمت کا فلسفہ سمجھ لیا، جس کی وجہ سے ظالم کی طاقت بے اثر ہوچکی ہے اور اس کی زندہ مثال 4 دہائیوں سے ایران پر امریکہ اور عالمی پابندیوں کے باوجود آج بھی اس کرہ ارض پر ترقی پذیر ملکوں میں کوئی ایک ملک ہے جو امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتا ہے تو وہ ملک ایران ہے حالانکہ امریکی طاقت اور قوت کی اسیر مذموم عناصر نے ایرانی پارلیمنٹ کو دھماکے سے اُڑا دیا، دھماکے کروائے، انقلاب کی عظیم شخصیات کو قتل کروایا جس میں دو نابغہ روزگار شخصیات آیت اللہ مطہری اور آیت اللہ بہشتی بھی شامل تھے ، جن کو قتل کرواکر امریکہ نے علم دشمنی کو بھی اپنا ورثہ بنالیا۔
ہزاروں سال جس بے نوری پر امت مسلمہ روئی تھی وہ دیدہ ور آج 4 جون کو ہم سے جدا ہوگیا تھا، مجھے یہ شرف حاصل ہوا کہ میں امام خمینیؒ کی تشیع جنازہ میں شریک ہوا دسیوں لاکھ انسان اس ملکوتی شخصیت کو رخصت کرنے تہران سے پیادہ روی کرتے ہوئے اس شہر کے مضافات میں قائم بہشت زہرا پہنچے تھے، یہ اجتماع اپنے اندر اس قدر لوگوں کو سمائے ہوئے تھا کہ جب جنازہ بہشت زہرا پہنچا تو ایسا کہرام مچا جس کی وجہ سے متعدد افراد کی روح قفص عنصری سے پرواز کرگئی اور سینکڑوں لوگ بیہوش ہوگئے، آج امام خمینیؒ ہمارے درمیان نہیں لیکن اُن کی کاشت کردہ کھیتی ظالم قوتوں پر الہی عذاب کی طرح نازل ہے۔