تحریر :- محمد رضا سید
اسرائیلی حکومت میں دائیں بازو سے تعلق رکھنے والی اکثریت طاقت کے غرور اور نسلی امتیاز اور بالادستی کے خود ساختہ نظریات کو جنگی اُصولوں پر فوقیت دے رہی ہے جو لاکھوں یہودیوں کیلئے خطرات کو بڑھانے کا موجب بن رہی ہے، یہودیوں کی حالیہ تاریخ میں عربوں کی پسپائی نے اسرائیلی غرور کو سنگین شکل دیدی ہے وہ 60 اور 70 کی دہائی کی سوچ سے باہر نہیں نکلے ہیں، طاقت کسی بھی قوم کو بدمستی کا شکار بنادیتی ہے، اسرائیل کا قیام اور اسکی توسیع پسندی کی بنیاد طاقت اور ستم جوئی پر استوار ہے، ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے ساتھ ہی اسرائیل کے وجود پر سوالیہ نشان لگ چکا تھا، ایرانی قیادت نے منصوبہ بندی کیساتھ اسرائیل کے گرد گھیرا تنگ کیا، 7 اکتوبر 2023ء کو اسرائیلی ردعمل نے اسرائیل کی وجودی حیثیت کے دن مزید کم دیئے ہیں، یمن نے کم و بیش 2000 کیلومیٹر بیلسٹک میزائیل تل ابیب پر مار کر اسرائیلی جنگی نظام کو درھم برھم کردیا ہے، اب یمن کی حکومت اور حوثیوں کی مزاحمتی تحریک انصار اللہ نے اعلان کیا ہے کہ وہ بوقت ضرورت ہزاروں اعلیٰ تربیت یافتہ فوجی اور کمانڈوز کو لبنان میں اسرائیلی جارحیت کے مقابلے کیلئے تعینات کرنے کا منصوبہ بناچکا ہے، اور تمام تر تیاریاں مکمل کرلی گئیں ہیں، دارالحکومت صنعا میں ایک اہم بریفنگ کے دوران اس عزم کا اظہار کیا گیا ہے کہ یمنی فوج حزب اللہ کے شانہ بشانہ اسرائیل کے خلاف جہاد کرنے کیلئے مکمل طور پر آمادہ ہے، یمن کی حکمراں جماعت انصار اللہ کی میڈیا اتھارٹی کے نائب صدر نصر الدین عامر نے پیر کے روز فلسطینی خبر رساں ایجنسی شہاب سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یمن حزب اللہ کی اسی طرح حمایت کرئیگا جس طرح غزہ میں فلسطینی مزاحمتی تحریک حماس اور الجہاد اسلامی کے بھائیوں کی حمایت کررہا ہے، یمن کی حکومت اور فوج نے اس عزم کا اظہار بھی کیا کہ وہ اسرائیل اور اُس کے اتحادیوں کے خلاف جہاد کے اسلامی فریضے کی ادائیگی کے سلسلے میں صف اوّل میں کھڑی نظر آئے گی۔
اسرائیل کی دائیں بازو کی شدت پسند اور باطل نظریات کی حامل حکومت کی تمام تر جمع خرچ لبنان پر بڑے حملے کے اعلانات تک محدود ہے جو وہ گزشتہ جون سے کررہا ہے لیکن خوفذدہ اسرائیلی حکومت اپنے مغربی اتحادیوں اور بالخصوص مکار امریکی انتظامیہ کو اپنی جنگ لڑنے کیلئے مجبور کررہا ہے جبکہ واشنگٹن کے پالیسی ساز حکام تواتر سے اسرائیل کو قائل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں کہ جنگی میدان کو نئی امریکی انتظامیہ کے برسراقتدار آنے تک توسیع دینے کا اہم فیصلہ نہیں کرسکتے جو یقیناً ٹھوس بہانہ ہی ہے، یمنی فوج غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کو روکنے کیلئے مقبوضہ علاقوں میں اسرائیل کے فوجی اور معاشی اہداف پر متعدد حملے کرچکی ہے، اتوار کو بیلسٹک میزائل سے تل ابیب پر کیا گیا حملہ جس نے اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کے فضائی دفاعی نظام کو ناکارہ ثابت کردیا اُس نے تو تل ابیب اور اس کے اتحادیوں پر ٹھیک ٹھاک ہیبت طاری کردی ہے، یمن سے ہزاروں فوجیوں کو لبنان پہنچانے کے منصوبے کا اعلان تل ابیب کے گزشتہ کئی مہینوں سے لبنان پر بڑا حملہ کرنے کے اشتعال انگیز بیانات کے بعد سامنے آیا ہے، غاصب اسرائیل شمال میں اپنے زیر قبضہ علاقوں کی تباہی، آباد کاروں کی نقل مکانی اور فوجی اہداف پر حزب اللہ کے تابڑ توڑ حملوں کے سدباب کیلئے لبنان پر حملہ تو کرنا چاہتا ہے مگر تنہا حملہ کرنے سے خوفذدہ ہے اور اس کیلئے اتحادیوں کو ملوث کیلئے شیطانی سازشیوں میں مصروف ہے جبکہ لبنان کی دفاعی لائن حزب اللہ نے کہا ہے کہ اسرائیل نے کسی بھی بڑے حملے میں پہل تو غاصب یہودی ریاست کو اُسی طرح سے جواب دیا جائیگا اور پھر اسرائیل کے پاس جنگ ختم کرنے کا اختیار نہیں رہیگا، حزب اللہ نے اسرائیل کے مغربی اتحادوں اور سرپرستوں پر واضح کردیا ہے کہ لبنان پر حملے کی صورت میں اسرائیل کے تمام اتحادیوں کے خلاف کی جنگ شروع کردی جائے گی، جس کے اثرات سے امریکہ اور یورپ بری طرح سے متاثر ہونگے جبکہ اسرائیل کے ایٹمی اثاثوں کو بھی نشانہ بنایا جائیگا، یہ بات یاد رہے کہ حزب اللہ نے دنیا پر اپبی عسکری استعداد کے بعض مظاہر آشکار کردیئے ہیں جس میں زیر زمین میزائل فائرنگ کا نظام بھی شامل ہے جو اسرائیل کے طول و عرض میں تزویراتی اہداف کو نشانہ بنانے کے قابل ہے۔
اس کے علاوہ انصار اللہ کی میڈیا اتھارٹی کے نائب صدر نصر الدین عامر نے زور دے کر کہا کہ یمن غاصب اسرائیل کے طول و عرض میں واقع فوجی اور معاشی اہداف کو نشانہ بنانے صلاحیت رکھتا ہے لبنان میں یمنی فوجیوں کی موجودگی اس ملک کی عسکری صلاحتوں میں خاطر خواہ اضافہ کرئے گا، حوثیوں کی مزاحمتی تحریک انصار اللہ کے میڈیا منیجر جولائی میں تل ابیب پر یمنی افواج کے حملے پر بھی تبصرہ کیا جس میں ایک یمنی ڈرون نے دفاعی نظام کو ناکارہ بناتے ہوئے تل ابیب میں امریکی سفارتی عمارت کے نزدیک حملہ کیا تھا، جسکا مقصد اسرائیل کو یمنی طاقت سے آگاہ کرنا تھا، اسرائیل نے غزہ کو تباہ کرکے اور فلسطینیوں کی نسل کشی کے منصوبے پر عمل پیرا ہوکر بہت بڑی غلطی کی ہے، تل ابیب نسل کشی کے ذریعے زمیں ہتھیانے کی اپنی روایتی حکمت علی کو غزہ کے غیور فلسطینیوں کے سامنے کارگر نہیں بناسکا، اسرائیلی دفاعی ماہرین اور فوج بار بار اپنی حکومت کو سمجھانے کی کوشش کررہی ہے کہ فضول نظریات کی خاطر اسرائیل اور دنیا کو تختہ مشق بنانے سے گریز کیا جائے، لبنان پر بڑے حملے کی کوشش کی گئی تو اسرائیل کو صرف لبنان سے جواب نہیں ملے گا یمن، شام، عراق اور غزہ سے اسرائیل پر آگ کی برسات ہوگی جو یہودی شہریوں کیلئے خطرناک ہوگی، اسرائیل کے مفاد میں جس طرح جلد از جلد جنگ بندی ضروری ہے جبکہ حماس یا حزب اللہ سمیت مزاحمتی محور کیلئے جنگ بندی خاطر خواہ اہمیت نہیں رکھتی ہے۔