جمعیت علمائے اسلام(ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ہے کہ تحریک انصاف کے وفد سے ملاقات کا مقصد تعلقات میں بہتری اور تلخیوں کو دور کرنا ہے، پارلیمنٹ کے اندر بھی آواز اٹھائیں گے اور ہمیں ملک کے اندر خوشگوار سیاسی ماحول کی طرف بڑھنا چاہیے، قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف عمر ایوب، اسد قیصر اور ساجد ترین پر مشتمل تحریک انصاف کے وفد نے اسلام آباد میں مولانا فضل الرحمان کی رہائش گاہ پر ان سے ملاقات کی جس میں ملک کی موجودہ صورتحال، 8 فروری کو ہونے والے عام انتخابات سمیت مختلف امور پر گفتگو کی گئی بعدازاں مولانا فضل الرحمٰن نے پی ٹی آئی کے وفد کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی وفد کی سوچ ہےکہ اپوزیشن جماعتوں کے درمیان رابطے رہیں اور ملکی مسائل پر مشترکہ موقف اختیار کرنے کیلئے سیاسی ماحول بھی موجود ہے اور ہمارا اس سوچ سے کوئی اختلاف نہیں ہے، انہوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ سیاسی ماحول میں رابطے بڑھتے چلے جائیں، تعلقات میں بہتری اور تلخیوں کو دور کرنا ہمارا مقصد ہے اور ہم اس جذبے کو خوش آمدید کہیں گے، ان کا کہنا تھا کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ آئین پاکستان کی کوئی حیثیت نہیں رہی ہے، پارلیمنٹ کی اہمیت ختم ہو چکی ہے، جمہوریت اپنا مقدمہ ہار رہی ہے اور دہشت گردی کے خلاف آپریشن گزشتہ 10-15 سالوں سے چل رہا ہے لیکن اس کے باوجود دہشت گردی میں دسیوں گنا اضافہ ہوا ہے، فضل الرحمٰن نے کہا کہ یہ کیا حکمت عملی ہے کہ بلند و بانگ دعوؤں کے باوجود وہ عام آدمی کو امن فراہم نہیں کر سکے اور حال ہی میں چند دنوں پہلے جنوبی وزیرستان میں پاکستان کی طرف سے ڈرون حملہ کر کے عام شہریوں کو شہید کیا گیا اور اس کا اعتراف بھی کیا، منصوبہ بندی کے بغیر اندھا دھند آپریشن جو عام آدمی کی زندگیوں کو غیر محفوظ بنا دیتا ہے وہ ہمارے لئے کبھی بھی قابل قبول نہیں ہو سکتا، ان کا کہنا تھا کہ چمن بارڈر پر چھ سات ماہ سے دھرنا جاری ہے، یہاں سے احکامات جانے کے بعد وہاں جو قدغنیں لگائی جاتی ہیں، ان سے وہاں کی مقامی آبادی کا روزگار تباہ ہو گیا ہے، کوئی متبادل روزگار بھی نہیں دیا جا رہا اور بے ہنگم قسم کی شرائط عائد کر کے کہا جاتا ہے کہ یہ پاکستان کی عزت اور وقار ہے۔
جنوبی وزیرستان کے علاقے انگور اڈہ میں لوگ نکل آئے ہیں، وہ اپنی زندگی اور روزگار چاہتے ہیں اور ان کو کوئی متبادل نظام نہیں دیا جا رہا، یہ ہمارے ملک کی صورتحال ہے جس پر ہمارا فکرمند ہونا فطری عمل ہے اور اس حوالے سے ہم سمجھتے ہیں کہ جو بھی ہمارے مشترکات ہیں اس پر پارلیمنٹ کے اندر ہماری آواز ایک ہونی چاہئے اور ملک کے اندر بھی ہمیں خوشگوار سیاسی ماحول کی طرف بڑھنا چاہئے، اگر ہم اختلاف کو ختم نہیں کر سکتے تو انہیں نرم تو کر سکتے ہیں، کچھ ترجیحات ایسی ہوتی ہیں جن کیلئے دوسری ترجیحات کو معطل کرنا پڑتا ہے، اس موقع پر تحریک انصاف کے رہنما اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف عمر ایوب نے کہا کہ ہماری مولانا فضل الرحمٰن سے بہت مفید گفت و شنید ہوئی، قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کی حیثیت سے ہم یہ چاہتے ہیں کہ جے یو آئی(ف) سمیت ہماری جتنی پارٹیاں ہیں، وہ پاکستان میں آئین و قانون کی پاسداری کے لئے ہماری جدوجہد کا ساتھ دیں اور یہی میرے قائد عمران خان اور تحریک کے قائد محمود خان اچکزئی کی بھی خواہش ہے، انہوں نے کہا کہ اس وقت پاکستان میں آئین نامی کوئی چیز نہیں ہے، حماد اظہر اسلام آباد میں پی ٹی آئی کے مرکزی دفتر میں آئے جس کے بعد اسلام آباد پولیس نے وہاں دھاوا بول دیا جس کی ہم شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں، پولیس رؤف حسن کے حملہ آوروں کو ڈھونڈنے کے بجائے بے قصور لوگوں کے پیچھے لگی ہوئی ہے، ان کا کہنا تھا کہ چمن میں دھرنا دینے والوں کے مطالبات جائز ہیں، وہاں مہارنگ بلوچ کی پریس کانفرنس ہونی تھی تو پریس کلب کو سیل کردیا، وہاں اظہار رائے کی اجازت ہونی چاہیے، ان اقدامات سے ملک مضبوط نہیں ہوتا بلکہ اس کی جڑیں کمزور ہوتی ہیں، ان کا کہنا تھا کہ ملک اس طرح نہیں چلائے جاتے کہ آپ کسی قانون کو ہی خاطر میں نہ لائیں، جو رؤف حسن کے ساتھ ہوا کیا وہ کسی ایسے ملک میں ہو سکتا ہے جہاں قانون کی حکمرانی ہو، حکومت کے ساتھ بات چیت کے حوالے سے سوال پر مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ہم اس وقت کس پر اعتماد کریں، بات چیت کون کرے گا، وزیراعظم کرے گا، صدر مملکت کرے گا، آرمی چیف کرے گا، ابھی تو یہ معلوم نہیں کہ کون بات چیت کرے گا اور کس کے ساتھ کرے گا، عدلیہ کے خلاف جاری مہم اور سینیٹ میں ہونے والے گفتگو کی ہم مذمت کرتے ہیں، ہم سمجھتے ہیں یہ عدلیہ پر حملہ ہے اور یہ سپریم کورٹ کی سماعتوں کو سبوتاژ کرنے کے لئے یہ سب ہو رہا ہے، ہم اپنے ججوں کے ساتھ ہیں اور امید کرتے ہیں کہ وہ میرٹ کے مطابق فیصلے کریں گے۔