جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ فضل الرحمٰن نے رواں برس آٹھ فروری کے انتخابی نتائج کو مسترد کرتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کے بغیر فوری نئے انتخابات کا مطالبہ کیا ہے، جمعیت کی مجلس شوریٰ کے اجلاس کے بعد صحافیوں سے بات کرتے ہوئے فضل الرحمٰن نے کہا کہ غیر جانبدارانہ، صاف شفاف انتخابات منعقد کرائے جائیں تو ہی ملک میں استحکام آئے گا، فضل الرحمٰن نے کہا کہ آئین تمام اداروں کے دائرہ کار کا تعین کرتا ہے اور افواج کی سیاست میں مداخلت آئینی تقاضوں سے متصادم ہے، انہوں نے کہا کہ الیکشن کے عمل میں افواج، خفیہ ادارے اپنی مداخلت کو ختم کریں، انہوں نے 9 فروری کے انتخابات میں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کے خلاف تحریک کو منظم کرنے کا فیصلہ کیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ حکومت سے ہونے والے رابطوں کے بارے میں شوریٰ نے طے کیا ہے کہ موجودہ حکومت میں اتنا دم خم نہیں کہ وہ ہماری اور تمام سیاسی جماعتوں کے تحفظات دور کر سکے، فضل الرحمٰن کی پریس کانفرنس پر مسلم لیگ(ن) سے ہمدردی رکھنے والے سینئر صحافی سلمان غنی کہتے ہیں کہ اس وقت فضل الرحمٰن کا نئے انتخابات کا مطالبہ ان کے اضطراب کو ظاہر کرتا ہے۔
فضل الرحمٰن نے کہا کہ 2018 کے انتخابات کے بعد بھی ہم نے انتخابی نتائج تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا، وہ چاہتے تھے کہ حزبِ اختلاف کی جماعتیں پارلیمنٹ کا حصہ نہ بنیں، تاہم وہ کہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کی حکمتِ عملی کے باعث اس وقت سیاسی جماعتیں پارلیمنٹ کا حصہ بنیں تھیں، سلمان غنی نے کہا کہ جب پی ڈی ایم نے عمران خان کے خلاف قومی اسمبلی میں تحریکِ عدم اعتماد کو کامیاب کیا تو فضل الرحمٰن انتخابات کیلئے تیار نہیں تھے کیوں کہ انہیں حکومت میں حصہ ملا تھا اور ان کے بیٹے وزیر اور سمدھی گورنر تھے، اس وقت مولانا نے انتخابات کے حوالے سے کہا تھا کہ انتخابات میں جانا حماقت ہو گی۔