سعودی عرب کے وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے کہا ہے کہ غزہ کی پٹی میں فی الحال جنگ بندی کے کوئی آثار دکھائی نہیں دیتے، ان کا کہنا تھا کہ غزہ میں اقوام متحدہ کے فیصلے کی روشنی میں سعودی عرب بین الاقوامی فوج کی تعیناتی کی حمایت کرتا ہے، اس بین الاقوامی فوج کا مقصد فلسطینی اتھارٹی کی مدد کرنا ہوگا، سعودی عرب کی جانب سے کسی ایسے منصوبے کی حمایت کرنا جو اقوام متحدہ میں زیر غور ہی نہیں ہے، سعودی عرب کا یہ کہنا کہ بین الاقوامی فوج غزہ میں تعینات کی جائے، جس کا بنیادی مینڈیٹ فلسطینی اتھارٹی کی حمایت کرنا ہو ایسی حالت میں جب حماس فلسطینیوں کے حق کی جنگ لڑرہی ہے، سعودی عرب کا اسرائیلی موقف سے ہم آھنگ ہونا فلسطینیوں کی پشت میں خنجر گھونپنے کے مترادف ہے، ان خیالات کا اظہار انہوں نے میڈرڈ میں ہونے والی خارجہ امور سے متعلق کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا، شہزادہ فیصل کا مزید کہنا تھا کہ غزہ اور مغربی کنارے میں ہمیں روزانہ ایسے مظاہر دیکھنے کو ملتے ہیں جو مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی حل کو خطرات سے دوچار کر رہے ہیں، اپنی بات جاری رکھتے ہوئے سعودی وزیر خارجہ نے کہا کہ اسپین سمیت دوسرے یورپی ملکوں کی جانب سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے اعلانات افق میں گم ہوتے ہوئے دو ریاستی حل کے تناظر میں امید کی ایک کرن ہیں۔
لبنان کے حوالے سے اظہار خیال کرتے ہوئے شہزادہ فیصل بن فرحان کا کہنا تھا کہ ہمیں لبنان میں جنگ کا دائرہ پھیلنے کا اندیشہ ہے کیونکہ لبنان میں کوئی سیاسی منظر نامہ بھی دکھائی نہیں دیتا تاہم انہوں نے اپنے خطاب میں اس امید کا اظہار کیا کہ غزہ میں جاری جنگ رکنے پر لبنان اور اسرائیل کے درمیان سرحدی کشیدگی روکنے میں مدد ملے گی، سات اکتوبر کے بعد غزہ کی پٹی میں اسرائیل کےحملوں سے تقریباً روزانہ کی بنیاد پر اسرائیلی فوجی اور مزاحمتی تحریک حزب اللہ کے درمیان گولا باری کا تبادلہ دیکھنے میں آ رہا ہے، اسرائیل کی جانب سے اپنی شمالی سرحد پر لبنان کے خلاف بڑی کارروائی کی دھمکیوں کے بعد سے کشیدگی میں خاطر خواہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، ادھر امریکہ نے بھی خبردار کیا ہے کہ بالآخر واشنگٹن اس ضمن میں کسی اسرائیلی منصوبے کو روکنے کی پوزیشن میں بھی دکھائی نہیں دیتا۔