پاکستان کی وزارت داخلہ نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ایکس (ٹوئٹر) کو ملکی سلامتی کے لئے خطرہ قرار دیتے ہوئے سندھ ہائیکورٹ کے روبرو ایکس کو بحال کرنے سے انکار کردیا ہے، پیر کو وزارت داخلہ کی جانب سے سندھ ہائی کورٹ میں جمع کرائے گئے جواب میں کہا گیا ہے کہ وزارتِ داخلہ کا کام پاکستان کے عوام کے حقوق کا تحفظ کرنا ہے، ایکس پر پابندی سے پہلے تمام قانونی تقاضے پورے کیے گئے تھے، پاکستان میں ایکس پر پابندی آرٹیکل 19کی خلاف ورزی نہیں ہے، آرٹیکل 19 آزادی اظہار رائے کی اجازت دیتا ہے تاہم آزادی اظہار رائے پر قانون کے مطابق کچھ پابندی بھی ہوتی ہے، پاکستان میں رواں برس آٹھ فروری کو ہونے والے انتخابات کے ایک ہفتے بعد انتخابی نتائج میں ہیر پھیر پر شدید تنقید کئے جانے پر 17 فروری کو ملک بھر میں ایکس کی سروس کو بند کردیا گیا تھا، اس بندش کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ اور سندھ ہائی کورٹ میں درخواستیں دائر کی گئیں تھیں، 18اپریل کو سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس نے پاکستان میں بندش پر پہلی مرتبہ ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ وہ حکومت پاکستان کے تحفظات کو سمجھیں گے۔
ایکس کے شعبہ عالمی تعلقات نے اپنی پوسٹ میں کہا کہ وہ پاکستانی حکومت کے ساتھ ان کے تحفظات کو سمجھنے کے لئے کام جاری رکھیں گے، وزارت داخلہ نے عدالت میں جمع کرائے گئے اپنے جواب میں کہا ہے کہ ایکس پر ملکی اداروں کے خلاف نفرت انگیز مواد اپ لوڈ کیا جاتا ہے۔ ایکس ایک غیر ملکی کمپنی ہے جس کو متعدد بار قانون پر عمل درآمد کا کہا، وزارت داخلہ کے پاس عارضی طور پر ایکس کی بندش کے علاوہ کوئی راستہ نہیں تھا، جواب میں مزید کہا گیا کہ ایکس نے پاکستان کے ساتھ کسی ایسے ایم او یو پر دستخط نہیں کیے ہوئے جو مقامی قوانین کی پابندی کرے گا، وزارت داخلہ کے مطابق ملکی قوانین کی خلاف ورزی کی صورت میں ایکس پر پابندی کے سوا کوئی راستہ نہیں تھا، ملکی سکیورٹی اور وقار کے لئے پابندی لگائی ہے، حساس اداروں کی رپورٹ کی روشنی میں ایکس پر پابندی عائد کی گئی ہے، کچھ عناصر ایکس کے ذریعے ملک میں عدم استحکام پھیلانا چاہتے ہیں، واضح رہے جب پاکستان میں حساس اداروں کا کہا جاتا ہے تو اسکا مطلب فوج اور آئی ایس آئی انٹرنل ونگ ہوتا ہے، وزارت داخلہ نے مزید کہا کہ ناصرف پاکستان بلکہ دیگر ممالک بھی سوشل میڈیا پرپابندی لگاتے رہتے ہیں، یہ درخواست ناقابل سماعت ہے، ملکی مفاد میں مسترد کی جائے۔