تحریر : محمد رضا سید
اقوام متحدہ کے امدادی ادارے (انرا) کے کمشنر جنرل فلپ لازارینی نے بتایا ہے کہ گزشتہ چار روز میں اسرائیلی فوج کی بمباری سے چار اسکولوں تباہ ہوئے ہیں، جس میں زیادہ تر عورتوں اور بچوں نے پناہ لی ہوئی تھی، اِن غیر متوقع حملوں کے نتیجے میں سو سے زائد فلسطینی شہید ہوئے جن میں عورتوں اور بچوں کی اکثریت تھی، واضح رہے کہ اسرائیلی فوج نے نو ماہ سے جاری جنگ میں اقوام متحدہ کے تحت غزہ میں چلائے جانے والے دو تہائی اسکولوں پر حملہ کرکے تباہ کردیا ہے، جن میں بعض اب صرف مٹی کا ڈھیر ہیں، اسرائیلی فوج نے اپنے مذموم اقدامات کو حماس کے خلاف کارروائی کا حصّہ بنارہی ہے لیکن یہ واضح ہے کہ فلسطینی بچوں کو علم کی روشنی سے محروم کیا جارہا ہے، اسرائیلی فوج غزہ میں منظم نسل کشی ہی نہیں کررہی بلکہ زندہ بچ جانے والے فلسطینیوں کو طبی اور نفسیاتی طور پر کمزور کرنے کی منصوبہ بند کوششوں میں مصروف ہے جبکہ عالمی برادری اِن تمام حالات سے باخبر ہونے کے باوجود اسرائیل پر حقیقی دباؤ ڈالنے سے گریزاں ہے، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل جنگ بنندی کی قرارداد منظور کرچکی ہے مگر اسرائیل کا ہاتھ روکنے والا کوئی نہیں ہے، عراق، لیبیا، شام، سوڈان لبنان اور افغانستان میں اقوام متحدہ کی قراردادوں کو بنیاد بناکر جس سُرت سے امریکہ اور یورپی ملکوں نے فوجی مداخلت کی وہ تیزی اسرائیل کے ضمن میں کبھی دیکھنے میں نہیں آئی ہے، سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فرحان بن فیصل نے غزہ میں اقوام متحدہ کی فوج تعینات کرنے کا مطالبہ کیا ہے تاکہ حماس کے بجائے اس خطے کا کنٹرول فلسطینی اتھارٹی کو دلوایا جاسکے، سعودی عر یہ جرات کرسکتا ہے کہ مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں یہودی بستیوں کی غیر قانونی تعمیرات رکوانے کیلئے وہاں اقوام متحدہ کی فوج تعینات کرانے کا مطالبہ کرئے۔
منگل 9 جولائی کو جنوبی غزہ کے علاقے خان یونس میں پناہ گاہ کے طور پر استعمال ہونے والے ایک اسکول کے قریب اسرائیل کی بمباری میں کم از کم 25 فلسطینی شہید ہوئے، غزہ کے طبی حکام کے مطابق نصیرت کیمپ میں ایک اسکول پر ایسے ہی ایک اور حملے میں 16 فلسطینی شہید ہوئے، ایک حملہ غزہ شہر میں ایک اسکول پر بھی کیا گیا جس میں سینکڑوں افراد نے پناہ لے رکھی تھی، اطلاعات کے مطابق سوموار کو نصیرت کیمپ میں یا اس کے قریب اقوام متحدہ کے تحت ایک اسکول پر حملہ کیا گیا، گذشتہ دو ہفتوں کے دوران اقوام متحدہ کے اسکولوں پر حملے عام ہو گئے ہیں اور ہر مرتبہ ایسے حملے میں شہید ہونے والوں میں بچوں اور خواتین کی تعداد زیادہ ہوتی ہے، اکتوبر7، 2023 سے جاری جنگ کے دوران اقوام متحدہ نے غزہ میں تمام اسکول بند کر دیئے تھے اور انہیں فلسطینیوں کیلئے محفوظ پناہ گاہوں میں تبدیل کردیا، جس کی وجہ سے تقریباً 6 لاکھ بچوں کی تعلیم متاثر ہوئی، گزشتہ نو ماہ میں ایک وقت میں ان اسکولوں میں 10 لاکھ سے زیادہ لوگوں نے پناہ لے رکھی تھی، اس حقیقت کو بھی تاریخ میں یاد رکھا جائے گا کہ تل ابیب کی ایماء پر اقوام متحدہ نے اسکولوں کو فلسطینی شہریوں کیلئے محفوظ پناہ گاہوں میں تبدیل کردیا تھا، اقوام متحدہ کے ایک اہلکار جولیٹ توما نے کہا ہے کہ اگر یہ جنگ مزید جاری رہی تو بچوں کی ایک پوری نسل تعلیم سے محروم ہو جائے گی، بچے جس قدر طویل عرصہ تک اسکولوں سے باہر رہیں گے ان کے لئے تعلیمی نقصان کو پورا کرنا اتنا ہی مشکل ہو جائے گا، انسانی حقوق کے ادارے اور عالمی برادری اسرائیل اور عالمی یہودی لابی کے خوف سے اسکولوں سے دور رہنے والے فلسطینی بچوں کے مستقبل کے بارے میں ابھی غفلت برت رہیں ہیں لیکن جب یہ استحصال زدہ بچے مزدوری، نوعمری کی شادی اور اپنے حق کیلئے مسلح جد وجہد کریں گے تو انہیں اسرائیل کے مذموم اقدامات یاد نہیں رہیں گے۔
اقوام متحدہ کے مراکز کو عسکری مقاصد کے لئے استعمال کرنے کا اسرائیلی بیہودہ اور نامعقول الزام جنگی اُصولوں کو پامال کرنے کے مترادف ہیں، اسکولوں کو نشانہ بنانا جبکہ یہاں پناہ گزین موجود ہوں کھلا جنگی جرم ہے، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو اس بات کا ضرور نوٹس لینا چاہیے، جنگی اُصولوں کے مطابق اسکولوں، پناہ گاہوں اور طبی مراکز جیسی شہری تنصیبات کو جنگ سمیت ہر طرح کے حالات میں تحفظ ملنا چاہیے، دوسری طرف اسرائیلی فوج کی جانب سے غزہ کے بے یارو مددگار فلسطینیوں کو انسانی امداد کی فراہمی میں سنگین رکاوٹیں ڈالی جارہی ہیں ہیں، غزہ میں آمد کے راستے بند ہیں اور اسرائیلی فوج کی جانب سے غیر ضروری تاخیر کے باعث امداد کی رسائی مشکلات سے دوچار ہے، عالمی ادارہ صحت نے عالمی برادری کو خبردار کیا ہے کہ غزہ کے فلسطینیوں کی 98 فیصد آبادی غذائی قلت کا شکار ہوکر امراض میں مبتلا ہورہی ہے، غذائی قلت نے فلشطینیوں کی قوت مدافعت کو کمزور کردیا ہے خصوصاً عورتوں اور بچوں میں جنکی تعداد اب 16 لاکھ تک پہنچ چکی ہے جبکہ خواتین سالوں تولیدی عمل میں پیچیدگیوں کا شکار ہوکر افزائش نسل سے محروم ہوجائینگی، لگتا ایسا ہے کہ اسرائیل کی نسل کشی کا عمل فلسطینیوں کی موجودہ نسل تک محدود نہیں بلکہ وہ آئندہ نسل کو بھی ختم کررہی ہے، معالجین نے بتایا ہے کہ حاملہ خواتین کو درپیش شدید غذائی قلت، ذہنی دباؤ اور خوف کے باعث بچوں کی قبل از وقت اور کمزور حالت میں پیدائش کے واقعات میں نمایاں اضافہ ہو گیا ہے۔ یہی نہیں بلکہ خواتین اور بالغ لڑکیوں کے صنفی بنیاد پر تشدد کا نشانہ بننے کی شرح بھی بڑھ رہی ہے اور خاص طور پر بے گھر، بیوہ یا بے سہارا خواتین کیلئے یہ خطرات اور بھی زیادہ ہیں۔