حماس نے اسرائیل کی جانب سے غزہ میں قتل عام اور مذاکرات میں اس کے غیر سنجیدہ رویے کی وجہ سے غزہ تنازع پر ہونے والی جنگ بندی کے مذاکرات سے دستبردار ہو گیا ہے، اتوار کو میڈیا سے بات کرتے ہوئے حماس کے سینئر اہلکار نے بتایا ہے کہ مزاحمتی تحریک کے ایک اہم فوجی کمانڈر محمد الضیف اسرائیل کی جانب سے جنوبی غزہ کے ایک پناہ گزین کیمپ پر حملے کے دوران وہ مکمل طور محفوظ ہیں اور اسرائیل کے خلاف جہاد میں مصروف ہیں، اسرائیل نے اپنے فضائی اور زمینی حملے میں بڑی تعداد میں فلسطینی شہریوں کی شہادتوں کے بعد یہ جواز پیش کیا کہ اُس کا نشانہ حماس کے مطلوب کمانڈر کو تھے، اطلاعات کے مطابق حماس کے اہم فوجی کمانڈر محمد الضیف اسرائیل حملے کے دوران کیمپ میں موجود ہی نہیں تھے تاہم اسرائیل نے بڑی تعداد میں شہریوں کی شہادتوں کے بعد اس کی جانچ کرانے کا اعلان کیا ہے، غزہ کی وزارت صحت نے کہا کہ پناہ گرین کیمپ المواسی پر اسرائیلی حملے میں 92 افرادشہید ہوئے ہیں، اسرائیلی میڈیا کے مطابق نے محمد الضیف کو 7 اکتوبر کے حملوں کے ماسٹر مائنڈ میں سے ایک سمجھتا ہے، جنوبی غزہ میں المواسی کیمپ پر کئے گئے حملوں کا ہدف وہ تھے جہاں دوسرے اضلاع سے ہزاروں کی تعداد میں بے گھر فلسطینی جمع ہیں۔
دوسری جانب حماس کے سیاسی رہنما سینئر عہدیدار اور سیاسی اُمور کے سربراہ اسمعیل ہنیہ نے بین الاقوامی ثالثوں قطر اور مصر کو جنگ بندی کے حوالے سے جاری مذاکرات سے حماس کے دستبردار ہونے کے بارے میں بتادیا ہے، جو مئی میں امریکی صدر جو بائیڈن نے پیش کردہ تجویز پر حماس کے مثبت ردعمل کے بعد بحال ہوئے تھے، اسمعیل ہنیہ نے کہا کہ حماس قابض اسرائیل کی جانب سے سنجیدگی کے فقدان، تاخیر اور رکاوٹ کی مسلسل پالیسی اور فلسطینی شہریوں کے خلاف جاری قتل عام کی وجہ سے مذاکرات سے دسبردار ہورہی ہے، ان کا کہنا تھا کہ حماس نے جنگ بندی معاہدے تک پہنچنے اور اسرائیلی جارحیت کو ختم کرنے کے لئے بڑی لچک دکھائی ہے اور جب قابض حکومت جنگ بندی کے معاہدے اور قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے تک پہنچنے میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرے گی تو وہ مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کے لئے تیار ہے، اسمعیل ہنیہ نے ہفتے کو ایک بیان میں کہا کہ انہوں نے ثالثوں اور دیگر ممالک کو فون کیا ہے کہ وہ اسرائیل کو شہریوں پر حملے روکنے کے لئے دباؤ ڈالیں۔