پاکستان کے وزیر خارجہ اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ سابق وزیراعظم عمران خان کی جماعت پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) پر پابندی لگانے کا ابھی حتمی فیصلہ نہیں ہوا ہے، منگل کے روز لاہور میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس معاملے کو پہلے لیڈر شپ دیکھے گی، اس کے بعد ہمارے جو اتحادی ہیں ان سے مشورہ ہوگا، اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی پر پابندی کا فیصلہ قانون اور آئین کے مطابق لیا جائے گا، یہاں جو قانون کے خلاف سیاسی فیصلے ہوتے ہیں ویسا کوئی فیصلہ نہیں ہوگا، دوسری جانب سیالکوٹ میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے وزیرِ دفاع خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کے فیصلے کو پالیمنٹ میں لانے سے پہلے تمام جماعتوں سے منظوری لی جائے گا،آپریشن عزمِ استحکام کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ سب سے زیادہ دہشت گردی خیبر پختونخوا میں ہورہی ہے اور وہاں پی ٹی آئی کی حکومت ہے، انھوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت آپریشن میں حصہ لینے سے انکاری ہے، ان کا کہنا تھا کہ موجودہ حالات کا تقاضہ ہے کہ ملک کو معاشی طور پر مستحکم کرنے، دشت گردی کے خلاف جنگ اور آئین کے تحفظ کے لئے تمام ادارے مل کر کام کریں اور اپنے ذاتی محرکات کے تابع نہ ہوں۔
واضح رہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے تحریک انصاف پر پابندی لگانے کے حکومتی فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے کہا اسے اس بارے میں اعتماد میں نہیں لیا گیا ہے، پی پی پی کی سینیئر رہنما شیری رحمان نے نجی ٹی وی نیوز چینل سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں کوئی عندیہ نہیں تھا کہ اس طرح کا قدم اٹھایا جا رہا ہے، کوئی پیشرفت ہو رہی ہے یا ایسی کوئی ورکنگ ہو رہی ہے، پیپلز پارٹی اور دیگر حکومت کی اتحادی جماعتوں سمیت سیاسی جماعتیں بھی حکومت کی طرف سے تحریک انصاف پر پابندی کے اعلان کی مخالفت کر رہی ہیں، خیال رہے کہ گذشتہ دنوں پاکستان کے وزیراطلاعات نے ایک پریس کانفرنس میں پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کے فیصلے کا اعلان کیا تھا اور بتایا تھا کہ اس حوالے سے ایک ریفرنس سپریم کورٹ بھیجا جائے گا، حکومت کا یہ فیصلہ ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب گذشتہ ہفتے پاکستان کی سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کو ایک پارلیمان جماعت تسلیم کرتے ہوئے یہ فیصلہ دیا ہے کہ خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دی جائیں، سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی کی حکومت نے نظرِ ثانی کی اپیل دائر کی ہے۔