خیبرپختونخوا کے شہر بنوں میں دوسرے روز بھی مقامی افراد کا احتجاج جاری ہے، اس مارچ کے شرکا بنوں میں امن کی بحالی کے لئے ضروری اقدامات اٹھانے کے مطالبات کررہے ہیں، گذشتہ روز بنوں کی تاجر برادری کی درخواست امن مارچ کا انعقاد کیا گیا ہے جس میں ہزاروں افراد شریک ہوئے، جمعے کی دوپہر احتجاجی مارچ پر فائرنگ اور بھگڈر مچنے سے کم از کم ایک شخص جاں بحق اور 20 افراد زخمی ہو گئے تھے، سوموار کو مقامی افراد کا یہ امن مارچ دھرنے میں بدل گیا، یہ مقامی افراد بنوں کے ایک مرکزی چوک میں دھرنا دیئے بیٹھے ہیں جو صبح آٹھ بجے شروع ہوا ہے اور دن دو بجے تک جاری رہا، دھرنے کی جگہ پولیس لائن اور چھاؤنی کے قریب ہے جہاں چند روز قبل ایک خود کش دھماکے میں فوج کے آٹھ اہلکار جاں بحق اور دس حملہ آور ہلاک ہوئے تھے، گذشتہ روز مولانا عبدالغفار نے تمام قائدین کے ساتھ مذاکرات کے بعد دھرنے کا اعلان کیا تھا، دھرنے میں شریک افراد گذشتہ روز فائرنگ کے ذمہ داران کو کٹہرے میں لانے کا مطالبہ بھی کر رہے ہیں، اُدھر خیبر پختونخوا حکومت کے ترجمان بیرسٹر سیف نے کہا ہے کہ وزیراعلی علی امین گنڈاپور نے گذشتہ روز پیش آنے والے فائرنگ کے واقعے کی شفاف تحقیقات کے لئے کمیشن بنانے کا بھی اعلان کیا ہے، بیرسٹر سیف کے مطابق کمیشن شفاف اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کرکے رپورٹ پیش کرے گا، ان کے مطابق رپورٹ کو پبلک کیا جائے گا اور ذمہ داران کے کردار کا تعین کرکے قانونی کاروائی کی جائے گی۔
یاد رہے گذشتہ روز بنوں شہر کے خلیفہ گل نواز ہسپتال کے ترجمان نے میڈیا کو بتایا تھا کہ اس واقعے کے بعد ایک شخص کی لاش جبکہ 23 زخمیوں کو ہسپتال منتقل کیا گیا ہے، ترجمان کا کہنا ہے کہ زخمیوں میں سے زیادہ تر کو بھگدڑ کی وجہ سے چوٹ لگی ہے تاہم کچھ گولی لگنے سے بھی زخمی ہوئے ہیں، خیال رہے کہ احتجاجی مارچ کے شرکا کے مطابق فائرنگ اور بھگدڑ کا واقعہ اسپورٹس کمپلیکس کے راستے پر پیش آیا ہے جہاں مارچ کے شرکا جلسے کے لئے جمع ہونے جا رہے تھے، صوبائی حکومت کے ترجمان نے موجودہ دہشت گردی کی لہر کے پیش نظر عوام سے انتہائی احتیاط سے کام لینے کی درخواست ہے، انھوں نے کہا کہ کمیشن کی رپورٹ سے قبل افواہوں اور بلا تصدیق الزامات سے اجتناب کرنا چاہیے۔