پاکستان تحریک انصاف کے بانی چیئرمین عمران خان کا اڈیالہ جیل سے ایک پیغام سوشل میڈیا پر ان کے ذاتی اکاؤنٹ سے شیئر کیا گیا ہے، عمران خان نے کہا کہ 70 کی دہائی میں جینے والے چند افراد جو اس امر سے یکسر نابلد ہیں کہ سوشل میڈیا کام کیسے کرتا ہے وہ ڈیجیٹل دہشت گردی کے لقب دے رہے ہیں، واضح رہے کہ پاکستان فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے پیر کے روز ایک پریس کانفرنس میں فوج کے ادارے اور اس کی قیادت پر مبینہ فیک نیوز کی مدد سے تنقید کرنے والوں کو ڈیجیٹل دہشت گرد قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان افراد کو قانون اور سزائیں ہی روک سکتی ہیں، اس بیان کی اہم بات یہ تھی کہ پاکستان کی مسلح افواج کے ترجمان احمد شریف چودھری نے شدت پسندوں اور ڈیجیٹل دہشت گردوں کے درمیان موازنہ کرتے ہوئے کہا کہ اِن دونوں کا ہدف فوج ہے، عمران خان نے اپنے بیان میں کہا کہ پوری پاکستانی قوم کو دہشت گرد کہہ کر قوم کو متنفر کیا جا رہا ہے، انھوں نے کہا کہ پاکستان کے 90 فیصد آبادی تحریک انصاف کے ساتھ کھڑی ہے، پاکستان کی 90 فیصد عوام نے آٹھ فروری کو تحریک انصاف کے حق میں ووٹ دیا تھا، ان سب کو اگر ڈیجیٹل دہشت گرد کہا جائے گا تو فوج اور عوام کے درمیان ایک خلیج پیدا ہو گی اور یہ نفرت پیدا نہیں ہونی چاہیے۔
لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے یہ بھی کہا تھا کہ جس طرح ایک دہشت گرد ہتھیار پکڑ کر اپنی بات منوانے کی کوشش کرتا ہے، اسی طرح ڈیجیٹل دہشت گرد موبائل، کمپیوٹر، جھوٹ، فیک نیوز اور پراپیگنڈے کے ذریعے اضطراب پھیلا کر اپنی بات منوانے کی کوشش کرتا ہے، عمران خان نے کہا کہ سنہ 1971 میں بھی یہی کچھ ہوا تھا۔ 25 مارچ 1971 کو جب ڈھاکہ کے اندر یحییٰ خان نے لوگوں کی بڑی تعداد کے خلاف آپریشن کیا تھا تو اس کے نتائج ملک کے لئے اچھے نہیں نکلے، اب بھی اگر پاکستان کی اکثریت آبادی کو دہشت گرد کہا جائے تو اس کے ملک کے لئے خطرناک نتائج نکلیں گے سابق وزیر اعظم نے کہا کہ جو بھی لوگ یہ کر رہے ہیں ان کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں۔