غزہ میں اسرائیلی جارحیت کے 300 دن جمعرات کو مکمل ہوگئے، جس میں ابتک غزہ میں سرگرم امریکی ڈاکٹرز کے مطابق 92000 سے زائد فلسطینی مارے گئے ہیں، تہران میں اسماعیل ہنیہ کی ٹارگٹ کلنگ کے بعد حماس کی قید میں اسرائیلی شہریوں کی رہائی کے امکانات پر سوال اُٹھائے جارہے ہیں، اسرائیلی قیدیوں کے اہل خانہ مذہبی شدت پسند حکومت سے جنگ بندی معاہدے کے لئے احتجاج کررہے ہیں، تل ابیب سمیت اسرائیل کے مختلف شہروں میں ہفتہ وار مظاہروں کے علاوہ بدھ کی رات کو بھی جنگ بندی کا مطالبہ کرنے والے اسرائیلی سڑکوں پر نکل آئے اور وزیراعظم نیتن یاہو کے خلاف نعرے لگائے، متاثرہ خاندانوں اور حکومت مخالف مظاہرین نے جمعرات کی صبح تل ابیب میں مرکزی سڑکوں کو بند کر دیا، جمعرات کی شام کو شہر میں ایک مارچ متوقع ہے، ریلیوں کے اشتہارات میں لکھا گیا ہے کہ خاموشی کا مطلب تباہی ہے، حکومت جنگ بندی معاہدہ کرئے اور قیدیوں، کو واپس لائے، قیدیوں کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ جنگ بندی میں تاخیر سے قیدیوں کی زندگی کے امکانات کم ہوتے رہیں گے، قیدیوں کے اہل خانہ نے حکومت کی اس منطق کو مسترد کردیا کہ جب تک حماس مکمل طور پر ختم نہیں ہوجاتی اسرائیل جنگ ختم نہیں کرئے گا، اس کا صاف مطلب ہے کہ اُس وقت تک حماس کی قید سے اسرائیلیوں کی واپسی ممکن نہیں بنائی جاسکتی۔
قیدیوں کے اہل خانہ نے کہا کہ ہم کثیر المحاذ جنگ سے ایک قدم دور ہیں اور ہمیں معلوم نہیں کہ اسرائیلیوں کا مستقبل کیا ہے، مظاہرین میں شامل متان کے اہل خانہ نے بتایا کہ بیشتر اسرائیلی خاندانوں نے اپنے اخراجات 80 فیصد تک کم کرلئے ہیں، ہمیں نہیں معلوم جنگ کے بعد ہماری زندگی کیسے گزرے گی جبکہ جنگ کی وجہ سے لوگوں نے اپنے کارروبار کو محدود کرلیا ہے، ملک کا سارا نظام درہم برہم ہوچکا ہے کارخانے بند ہیں اور بجلی بنانے کی صلاحیت کم کرنا پڑی ہے، کیا اب اسرائیلیوں کو بے روزگاری کا سامنا کرنا ہوگا، اِن سوالوں کے جواب نہیں مل رہے ہیں اور اسرائیلی ذہنی مریض بنتے جارہے ہیں، ہم نے کبھی ایسا نہیں سوچا تھا جو ہمارے ساتھ ہورہا ہے، شمال میں جنگ بندی کے امکانات نظر نہیں آرہے اس محاز سے بے گھر ہونے والے 460 خاندان بے بسی کی تصویر بنے ہوئے ہیں جبکہ نیتن یاہو کی حکومت معمولی مدد کے بدلے سخت حالات میں زندگی گزارنے کا مطالبہ کرتی ہے یہ سب کب تک چلانا چاہتے ہیں، ہمیں اپنے گھروں کو واپس جانا ہے، ہمیں دوبارہ سانس لینے دو۔