بنگلہ دیش میں وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کے استعفے کا مطالبہ کرنے والے مظاہرین، پولیس اور حکومت کے حامیوں کے درمیان اتوار کو ہونے والی جھڑپوں میں جان سے جانے والوں کی تعداد کم از کم 23 ہو گئی، یہ اموات دارالحکومت ڈھاکہ اور شمالی اضلاع بوگرا، پبنا اور رنگ پور کے علاوہ مغرب میں مگورا، مشرق میں کومیلا اور جنوب میں بریسال اور فینی میں ہوئیں، پولیس نے ہزاروں مظاہرین کو منتشر کرنے کیلئے آنسو گیس اور اسٹن گرینیڈ استعمال کئے، بین الاقوامی میڈیا کے مطابق عینی شاہدین نے بتایا کہ وسطی ضلع منسی گنج میں مظاہرین، پولیس اور حکمراں جماعت کے کارکنوں کے درمیان تصادم کے دوران کام پر جانے والے دو مزدوروں کی موت ہوگئی اور 30 زخمی ہو گئے، ضلعی ہسپتال کے سپرنٹنڈنٹ ابو حنا محمد جمال نے بتایا کہ مزدوروں کو گولیاں لگنے کے بعد مردہ حالت میں سپتال لایا گیا، پولیس کا کہنا ہے کہ انہوں نے کوئی گولی نہیں چلائی، تاہم جب کچھ دیسی ساختہ دھماکہ خیز مواد پھٹا تو علاقہ میدان جنگ میں تبدیل ہو گیا، عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ شمال مشرقی ضلع پبنا میں مظاہرین اور حسینہ واجد کی حکمراں جماعت عوامی لیگ کے کارکنوں کے درمیان جھڑپ کے دوران کم از کم تین افراد کی جان گئی اور 50 زخمی ہو گئے، ہسپتال کے حکام نے بتایا کہ شمالی ضلع بوگورا میں تشدد میں مزید دو افراد جان سے گئے ہوئے جبکہ چار دیگر اضلاع میں پانچ افراد کی جان گئی، مظاہرین جن کی بڑی تعداد لاٹھیوں سے لیس ہے۔
مظاہرین حکومتی کریک ڈاؤن کے خلاف اور مزید رعایتوں کے لئے سراپا احتجاج ہیں، ملک گیر احتجاج اور سول نافرمانی کی مہم کے اہم رہنما آصف محمود نے حامیوں سے کہا ہے کہ وہ لڑنے کے لئے تیار رہیں، اتوار کو فیس بک پر آصف محمود نے لکھا لاٹھیاں تیار کرو اور بنگلہ دیش کو آزاد کراؤ، ادھر ملک کی فوج کے سربراہ نے کہا ہے کہ فوج ہمیشہ عوام کے ساتھ کھڑی رہی اور آئندہ بھی ایسا ہی کرے گی، مظاہروں کے بعد کچھ سابق فوجی افسران طلبہ تحریک میں شامل ہو گئے تھے جب کہ سابق آرمی چیف جنرل اقبال کریم نے مظاہروں کی حمایت کے اظہار میں اپنی فیس بک پروفائل تصویر کو سرخ کر دیا تھا، موجودہ آرمی چیف جنرل وقار الزمان نے ہفتے کو ڈھاکہ میں فوجی ہیڈکوارٹرز میں افسران سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بنگلہ دیش کی فوج عوام کے اعتماد کی علامت ہے، کرفیو کے ذریعے فوج نے مختصر طور پر امن بحال کیا تھا لیکن رواں ہفتے حکومت کو مفلوج کرنے کے مقصد سے شروع کی گئی عدم تعاون کی تحریک میں مظاہرین بڑی تعداد میں سڑکوں پر لوٹ آئے، ہفتے کو جب لاکھوں مظاہرین نے ڈھاکہ میں مارچ کیا پولیس نے ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی، حکومت کے خلاف احتجاج کرنے والے طلبہ نے مظاہرین پر سخت پولیس کریک ڈاؤن کے بعد ہفتے کو ملک گیر سول نافرمانی شروع کرنے کا اعلان کرتے ہوئے عوام سے حکومت سے تعاون نہ کرنے کی اپیل کی تھی۔