سابق وزیر اعظم عمران خان نے 190 ملین پاونڈ کے مقدمے کی سماعت کے بعد اڈیالہ جیل میں قائم احتساب عدالت میں موجود میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے مطالبہ کیا ہے کہ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹینٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کے خلاف ٹرائل اوپن کورٹ میں ہونا چاہیے، انھوں نے اپنی جماعت پاکستان تحریک انصاف کو سب سے بڑی جماعت قرار دیتے ہوئے کہا کہ کیونکہ یہ پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ پر الزام کا معاملہ ہے اس لئے اس معاملے کو اوپن کورٹ میں چلایا جائے اور میڈیا کے نمائندوں کو بھی آنے کی اجازت دی جائے تاکہ پوری دنیا کو معلوم ہو کہ ہو کیا رہا ہے، بانی پی ٹی آئی عمران خان کا کہنا تھا کہ میرا جنرل فیض حمید سے تب تک ہی رابطہ تھا جب تک ڈی جی آئی ایس آئی تھے اس کے بعد سے ان سے میرا کوئی رابطہ نہیں ہے، سابق وزیر اعظم نے کہا کہ پاکستان میں جب کوئی ریٹائرڈ ہو جاتا ہے تو وہ ہیرو سے زیرو ہو جاتا ہے، انھوں نے کہا کہ ان کے پاس اختیارات نہیں ہوتے، جس کے پاس اختیارات نہیں ہوں میں اس سے کیسے رابطہ رکھوں گا، کمرہ عدالت میں موجود صحافی کے مطابق سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ اس طرح اوپن عدالتی کارروائی سے بڑی بڑی باتیں سامنے آئیں گی نئی نئی چیزیں پتہ لگیں گی کیا ہوا ہے اور کیا ہو رہا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے بانی سربراہ عمران خان نے صحافیوں سے گفتگو کے دوران مزید کہا کہ گزشتہ برس مارچ میں اسلام آباد کے جوڈیشل کمپلیکس میں جس نے میری گرفتاری اور گھسیٹنے کے احکامات دیئے وہی 9 مئی کا ذمہ دار ہے، انھوں نے کہا کہ نو مئی نیشنل سکیورٹی کا مسئلہ نہیں بلکہ لوکل معاملہ ہے، انھوں نے کہا کہ ملک میں کیسی جمہوریت ہے جہاں پر ایک سابق وزیر اعظم کا مقدمہ ملٹری کورٹ میں چلایا جارہا ہے، عمران خان کا کہنا تھا کہ اڈیالہ جیل کے ڈپٹی سپرنٹینڈنٹ کو اٹھایا لیا گیا اور ان کی اہلیہ اپنے خاوند کی بازیابی کے لئے عدالتوں کے چکر لگا رہی ہے، سابق وزیر اعظم نے دعوی کیا کہ ’مجھے پتہ ہے میری گرفتاری کا آرڈر کس نے دیا، سابق وزیر اعظم سے سوال کیا کہ آپ کی گرفتاری کا آرڈر کس نے دیا؟ جس کا عمران خان نے جواب دیا کہ گرفتاری کا حکم نمبر ون نے دیا ہے کون نمبر ون وہی جو بادشاہ ہے جو سپر کنگ ہے۔