پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخواہ کے ضلع ڈیرہ اسمعیل خان سے پاکستانی فوج کا سینئر فوجی افسر سمیت دو دیگر حساس ادارے کے بیوروکریٹس کو اغواء کرلیا گیا ہے، اطلاعات کے مطابق فوجی افسر اور اس کے دو بھائی والد کی وفات پر سوئم کی تقریب میں شریک تھے اور لوگوں سے ملاقات کے دوران مبینہ اغواء کار مسجد میں داخل ہوئے اور سینئر فوجی افسر کو نادرا کے دو ملازمین بھائیوں سمیت اغوا کرلیا جبکہ پولیس نے واقعے کی تصدیق کردی ہے، پاکستانی میڈیا پر جاری کی گئی تفصیلات کے مطابق آرمی افسر اور ان کے دو بھائی نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کے ملازم ہیں، تینوں ڈیرہ اسمعٰیل خان کی تحصیل کولاچی کے محلے خادر خیل کی مسجد میں موجود تھے جہاں شہری ان کے والد کے انتقال پر تعزیت کے لئے آرہے تھے کہ اسی دوران اسلحے کے زور پر مشتبہ عسکریت پسندوں نے انہیں اغوا کیا، تینوں افسران والد کی نماز جنازہ میں شرکت کے لئے آبائی علاقے پہنچے تھے جو کہ 27 اگست کو ادا کی گئی تھی، کولاچی پولیس نے واقعے کی تصدیق کی تاہم اعلیٰ پولیس حکام نے واقعے کی تصدیق یا تردید نہیں کی ہے، یاد رہے کہ یکم اگست کو کولاچی کے علاقے ہتھالہ پولیس اسٹیشن کی حدود میں مسلح مشکوک افراد نے 4 کروڑ روپے کی رقم لے جانے والی نجی سکیورٹی کمپنی کی وین کو یرغمال رقم لوٹ لی اور بعدازاں وین کو نذر آتش کردیا گیا تھا۔
اسی طرح 27 اپریل کو جنوبی وزیرستان کے ڈسٹرکٹ اور سیشنز جج شاکر اللہ مروت کو کولاچی کے علاقے سے اغوا کیا گیا تھا، تاہم واقعے کے کچھ دیر بعد ہی وہ گھر لوٹ گئے تھے، ڈیراہ اسماعیل خان فرقہ وارانہ فسادات اور طالبان کا مضبوط گڑھ سمجھا جاتا ہے، یہاں فضل الرحمٰن کے مسلک سے تعلق رکھنے والے مدارس موجود ہیں جوکہ مذہبی دہشت گردی کی نرسریاں سمجھی جاتی ہیں، علامہ فضل الرحمٰن کو جنرل ضیاء الحق کے دور حکومت سے فوجی اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل ہے اور انہیں فوج نے زرعی زمینوں کے بڑے رقبے بھی دے رکھے ہیں، علامہ فضل الرحمٰن کو فی الوقت افغان طالبان اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی حنایت اور سپورٹ حاصل ہے اور وہ اسی طاقت کی بناء پر فوجی جنرلز کو للکارتے پھر رہے ہیں، خیال رہے سینئر فوجی افسر کا اغواء ایسی حالت میں ہوا ہے جب پاکستانی فوج نے ملک کے شمالی صوبے خیبرپختونخوا میں 20 ارب ڈالر کی لاگت سے آپریشن عزم استحکام شروع کیا ہے اس کے باوجود کے اس صوبے میں متعدد چھوٹے بڑے آپریشنز ہوچکے ہیں۔