تحریر: محمد رضا سید
ایرانی فوج کے جنرل نے اسرائیل کو خبردار کیا ہے کہ ہم نے جس جگہ کو چاہا اسے نشانہ بنایا اور ہم جس جگہ کو چاہیں نشانہ بنا سکتے ہیں اور اگر دشمن نے ایران پر جارحیت کی معمولی یا چھوٹی سی بھی غلطی کی تو ہم اسے خاک میں ملا دیں گے،پاسداران انقلاب کی زمینی کارروائیوں کے کمانڈر جنرل مرتضیٰ میران نے مقامی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم اسرائیل میں کسی بھی مقام کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں، انہوں نے یکم اکتوبر کو اسرائیل پر کیے گئے میزائل حملوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ آپریشن ٹرو پرومس 2 میں ہم نے دشمن پر حملہ کرنے کی اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا، واضح رہے کہ یکم اکتوبر کو کیے گئے اس حملے میں ایران پر کم و بیش 180 میزائل فائر کیے تھے البتہ یہ میزائل غاصب اسرائیل کے فضائی دفاع نظام کو ناکارہ بناتے ہوئے اپنے اپنے مقررہ ہدف تک پہنچے ہیں، انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں کسی بھی صورتحال کا مقابلہ کرنے کیلئے پیشگی اجازت مل چکی ہے اور ہماری انگلیاں ہر وقت ٹریگر پر ہیں تاکہ اگر دشمن چھوٹی سے چھوٹی غلطی بھی کرے تو ہم اسے خاک میں ملا دیں، ایرانی جنرل نے اسرائیلی دفاعی نظام کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ آئرن ڈوم، ڈیوڈز سلنگ اور ایرو کے ساتھ ساتھ صہیونی ریاست کی مدد کو ہمہ وقت تیار ممالک کو ہم نے دکھا دیا ہے کہ وہ کچھ بھی کرنے کے قابل نہیں ہیں، میزائل حملوں کا حوالہ دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ہم نے جس جگہ کو چاہا اسے نشانہ بنایا اور ہم جس جگہ کو چاہیں گے نشانہ بنا سکتے ہیں، جنرل مرتضیٰ میران نے مزید کہا کہ ایک بہت اہم نکتہ یہ ہے کہ اگر آپ ایک بار حملہ کریں گے تو ہم اس پر دس بار جوابی کارروائی کریں گے، ایک اور نکتہ یہ ہے کہ وہ ہم پر حملہ کریں گے تو جوابی کارروائی کے لئے تیار رہنا ہو گا، جوابی کارروائی یقینی ہے، ان کا کہنا تھا کہ میں اپنی بات دوبارہ دہراؤں گا کہ ہم جواب دیں گے اور خطرہ چاہے کتنی ہی سنگین نوعیت کا ہو، اس کا اسی شدت سے جواب دیں گے۔
ایرانی جنرل کے اس بیان سے قبل بدھ کے روز غاصب اسرائیلی وزیر دفاع یوو گیلنٹ نے کہا تھا کہ ایران کے میزائل حملے کا جواب انتہائی مہلک، حیران کن اور بروقت ہو گا، اسرائیلی میڈیا پر جاری ویڈیو بیان میں انہوں نے کہا کہ جو بھی ہم پر حملہ کرے گا اسے نقصان پہنچے گا اور اس کی قیمت چکانی پڑے گی، یوو گیلنٹ نے کہا کہ ہمارا حملہ جان لیوا، بروقت اور سب سے بڑھ کر حیران کن ہوگا، وہ سمجھ نہیں پائیں گے کہ کیا اور کیسے ہوا اور اس کے نتائج دیکھیں گے لیکن حقیقی صورتحال بہت مختلف ہے ابھی تک کسی مصدقہ ذرائع نے ایران کی جانب سے ایٹمی تجربات سے متعلق سوشل میڈیا پر گشت کرنے والی خبر کی تصدیق نہیں کی ہے تاہم ایران فضائی دفاعی نظام اور بیلسٹک میزائیلوں کا ذخیرہ اتنا ہے کہ وہ اسرائیل اور اُس کے اتحادوں کا ایک ساتھ مقابلہ کرسکتا ہے، ایرانی مقتدرہ یقینی طور پر امریکی مکاریوں سے آگاہ ہوں گے کیونکہ امریکی اسٹیبلشمنٹ اسرائیل کو جوابی کارروائی کرنے کی ترغیب دلارہی ہے، ایک اہم پیشرفت ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی کا دورہ ریاض ہے جہاں اُن کی سعودی عرب کے وزیراعظم اور ولیعہد محمد بن سلمان سے ملاقاتیں ہوئیں ہیں، باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی خواہش پر عراقچی اور اُن کے درمیان ون ٹو ون ملاقات ہوئی ہے، ذرائع کا کہنا ہے کہ سعودی قیادت نے یکم اکتوبر 24 کو اسرائیل پر ایرانی حملے کے بعد مسلم اُمہ کی خوشی اور احساس تحفظ کے جذبات کو نوٹ کیا ہے،ایرانی اسٹبلشمنٹ کی سعودی عرب سے کم ازکم دو خواہشات ضرور ہونگی ایک یہ کہ سعودی عرب اپنی فضائی حدود اسرائیل کی جانب سے استعمال نہ ہو اوردوسری اردن اور مصر سمیت سعودی عرب کا کوئی دوست ممالک اسرائیل کی کسی جارحانہ فوجی کارروائی میں مددگار اکائی کے طور پر سامنے نہ آئیں، اطلاعات کے مطابق سعودی قیادت نے ایرانی وزیر خارجہ کو مثبت جواب دیا دیا ہے،ایران کے وزیرخارجہ عباس عراقچی نے سعودی عرب غزہ اور لبنان پر اسرائیلی جارحیت بند کرانے کیلئے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنے کی ترغیب دلائی ہے جبکہ غزہ اور لبنان کے جنگ زدہ متاثرین کی مدد کیلئے آگے بڑھ کر کردار ادا کرنے کی بھی درخواست کی تاکہ طویل جنگ کی صورت میں عام شہریوں کی غذائی اور طبی ضرورتیں پوری کی جاسکیں۔
سعودی ولی عہد سے ملاقات میں عراقچی کی جانب سے بتایا گیا کہ اسرائیلی حکومت پورے خطے کو ایک تباہی کی طرف لے جا رہی ہے، انہوں نے مزید کہا کہ خطے کے ملکوں اسرائیلی ہٹ دھرمی کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس مشکل وقت میں بصیرت، دانشمندی، ہمت اور باہمی تعاون کیساتھ فیصلے کرنے کی ضرورت ہے، عراقچی کا کہنا تھا کہ ایران اور سعودی عرب مل کر خطے کو سلامتی اور استحکام کو یقینی بنائیں گےاس کے لئے اعلیٰ سطح کی سیاسی عزم کی ضرورت ہےاور مجھے خوشی ہے کہ آج اپنے سعودی ہم منصب کے ساتھ ایک طویل راستے پر پہلا قدم اٹھایا گیاہے، عراقچی اور سعودی قیادت کے درمیان ملاقات کا خلاصہ چند سطروں میں کیا جائے تو وہ یہ ہوگا کہ اسرائیل کی چوہدراہٹ اور توسیع پسندی ختم کرنے کیلئے مشترکہ کوششیں کی جائیں گی، ایران کےاسرائیل پر حملے اور تل ابیب کو پہنچنے والے نقصان کے بعد مسلم دنیا کا اعتماد بڑھا ہے اور باہمی تعاون کی راہیں کھل چکی ہیں ، معاہدہ ابراہیمی کے تحت اسرائیل کی تمام مذموم کوششیں ناکام ہوچکی ہیں غالب امکان ہے کہ مسلم دنیا ایک بار پھر اپنی دیرینہ پوزیشن پر آکر اسرائیل کو ناجائز ریاست قرار دے۔