پاکستان کے صوبہ سندھ کے تجارتی شہر کراچی میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والے 8 طلبا کو جبری لاپتہ کردیا گیا ہے، بلوچ یکجہتی کمیٹی کی رہنما سمّی دین بلوچ نے دعویٰ کیا ہے کہ ان طلبا کو گزشتہ ایک ہفتے کے دوران گلشن اقبال کے علاقے بشیر ویلیج سے اٹھایا گیا، بلوچ یکجہتی کمیٹی اور طلبا کے رشتہ داروں نے ان کی جبری گمشدگی کا الزام پولیس اور انتیلی جنس ایجنسی پر عائد کی ہے تاہم پولیس نے ان طلبا کی جبری گمشدگی کے حوالے سے لاعلمی کا اظہار کیا ہے، جن 8 طلبا کی جبری گمشدگی کا الزام ٰانٹیلی جنس اداروں پر لگایا جا رہا ہے ان میں بلوچستان کے ضلع خضدار کے علاقے گریشہ سے تعلق رکھنے والے ایف ایس سی کے طالب علم قمبر علی بھی شامل ہیں، قمبر علی آواران میں انٹر کالج مشکے کے طالب علم ہیں لیکن وہ ٹیوشن کے سلسلے میں کراچی میں بشیر ویلیج میں ایک فلیٹ میں رہائش پزیر تھے، ان کے بڑے بھائی وزیر بلوچ سے جب برطانوی نشریاتی ادارے نے رابطہ کیا تو انھوں نے الزام عائد کیا کہ ان کے بھائی قمبر علی کو دیگر طلبا کے ساتھ 16 اکتوبر کو صبح 6 بجے کے قریب ان کے فلیٹ سے اٹھایا گیا، وہ کہتے ہیں کہ میرا بھائی وہاں صرف تعلیم حاصل کرنے گیا تھا، ہمارے علاقوں میں تعلیم کا نظام بہتر نہیں ہے، ہم نے انھیں کراچی اس لئے بھیجا تاکہ وہاں کسی سینٹر میں داخلہ لیکر اپنی اہلیت کو بہتر کرے لیکن ان کو لاپتہ کر کے ہمارے خاندان کو ایک پریشانی سے دوچار کیا گیا، وزیر بلوچ نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ چونکہ اس فلیٹ میں بلوچستان کے دیگر علاقوں سے تعلق رکھنے والے طالب علم تھے اور ان کے بھائی کے علاوہ دیگر طلبا کو بھی اٹھالیا گیا، قوی امکان ہے کہ اِن بلوچ طلباء کو ائیرپورٹ کے نزدیک چینی شہریوں پر حملے کی تفتیش کی کڑی کے طور پر لاپتہ کیا گیا ہے، پاکستان کی پولیس اور انٹیلی جنس ادارے سائنسی بنیادوں پر تفتیش کے بجائے شک کو بنیاد بناکر پُتشدد تفیش کرتے ہیں اور اقبالی بیان کو عدالتوں میں پیش کرکے چاہتے ہیں کہ ملزم کو سزا دلوائی جائے اور عدالتیں ثبوت کے بغیر ملزم کو تو رہا کردیتی ہے لیکن اس پورے چکر میں دہشت گرد بچ جاتے ہیں۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کی سمّی بلوچ نے بتایا کہ بشیر ویلیج کے فلیٹ سے مجموعی طور پر 8 طلبا کو اٹھا لیا گیا، انھوں نے بتایا کہ ان میں قمبر علی کے علاوہ پسنی سے تعلق رکھنے والے کراچی یونیورسٹی میں تاریخ کے طالب علم شعیب علی، اورماڑہ سے فیڈرل اردو یونیورسٹی کراچی کے طالب علم حنیف بلوچ، پنجگور سے کراچی یونیورسٹی میں تاریخ کے طالب علم بیبرگ امیر، گڈانی سے کراچی یونیورسٹی میں ایل ایل بی کے طالب علم سعیداللہ، مند سے زبیر بلوچ کے علاوہ گریشہ سے مدرسہ کے دو طلبا اشفاق بلوچ اور شہزاد بلوچ شامل ہیں، سمّی بلوچ نے دعویٰ کیا کہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ایک اور طالب علم کو لیاری سے بھی جبری طور پر لاپتہ کیا گیا، قمبر علی کے بھائی نے پولیس پر الزام لگاتے ہوئے کہا کہ وہ عزیز بھٹی تھانہ کراچی میں اپنے بھائی اور دیگر طلبا کی ایف آئی آر درج کرانے گئے لیکن تھانے میں موجود پولیس اہلکاروں نے ایسے کرنے سے انکار کر دیا، ان کا کہنا تھا کہ تھانے میں ایف آئی آر نہ ہونے کے باعث انھوں نے مقدمے کے اندراج اور طلبا کی بازیابی کے لئے 19 اکتوبر کو سندھ ہائیکورٹ میں ایک درخواست دائر کی ہے تاہم جب 8 طلبا کی جبری گمشدگی کے حوالے سے عزیز بھٹی تھانے کے ایس ایچ او سعید احمد باریجو سے رابطہ کیا گیا تو انھوں نے اس حوالے سے لاعلمی کا اظہار کیا، اس سوال پر ان کے لواحقین ان کی جبری گمشدگی کا الزام پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں پر لگارہے ایس ایچ او کا کہنا تھا کہ وہ اس سلسلے میں معلومات حاصل کریں گے۔