شام میں بشار الاسد رجیم کی باقیات سے مشاورت کے بعد محمد البشیر کو عبوری وزیرعظم نامزد کردیا گیا ہے جو ماعچ 2025ء تک شام میں جمہوری قائم قائم کرنے کے پابند ہونگے، عبوری حکومت کے وزیرِ اعظم کے طور پر محمد البشیر کا نام پیر کو ہیئت تحریر الشام کے سربراہ ابو محمد جولانی، بشار الاسد حکومت کے سبکدوش ہونے والے شامی وزیرِ اعظم محمد جلیلی اور نائب صدر فیصل مقداد کی ملاقات کے بعد سامنے آیا تھا، اپنے پہلے ٹیلی وژن خطاب میں محمد البشیر نے بتایا ہے کہ عبوری حکومت یکم مارچ تک کام کرے، برطانوی ویب سائٹ مڈل ایسٹ آئی کے مطابق محمد بشیر پیشے کے اعتبار سے انجینیئر ہیں، محمد البشیر ادلب کے جبل الزاویہ کے علاقے میں 1980 کی دہائی کے وسط میں پیدا ہوئے، عبوری وزیراعظم محمد بشیر نے حلب کی یونیورسٹی سے الیکٹرک انجینئرنگ کی تعلیم حال کی ہے، وہ انگریزی زبان عبور رکھتے ہیں اور پراجیکٹ مینجمنٹ سے وابستہ رہے ہیں، اس کے علاوہ محمد البشیر نے ادلب یونیورسٹی سے شریعت و قانون کی ڈگری بھی حاصل کر رکھی ہے، محمد البشیر عبوری حکومت کے وزیرِ اعظم بننے سے قبل جنوری 2024 میں شمال مغربی شام میں ہیئت تحریر الشام کی بننے والی حکومت کے سربراہ تھے، یہ حکومت 2017 میں شام کے شمال مغربی صوبے ادلب اور اس کے نواحی علاقوں میں ہیئت تحریر الشام (ایچ ٹی ایس) نے قائم تھی۔
ہیئت تحریر الشام دراصل شام میں القاعدہ اور دیگر جہادی گروپ سے منسلک رہنے والے جنگجوؤں کی قائم کردہ تنظیم تھی جو2011 سے شام میں بشار الاسد حکومت کے خلاف جاری بغاوت میں شامل رہے تھے، خیال رہے امریکی اسٹبیلشمنٹ نے 2015ء ہیئت تحریر الشام کے سربراہ سفیان ابو محمد الجولانی کو عالمی دہشتگردون کی فہرست میں شامل رکھا ہے، اس پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور اقلیتوں پر مظالم ڈھانے جیسے الزامات تھے، ایچ ٹی ایس کے سربراہ ابو محمد الجولانی 2015 کے بعد القاعدہ سے علیحدہ ہوئے تھے اور انہوں نے شام میں بشار الاسد حکومت کے خلاف باغی جنگجو گروپس کو منظم کیا تھا۔ بعدازاں اپنے کنٹرول کے علاقوں میں ایچ ٹی ایس نے ایک حکومتی انتظام قائم کیا تھا، ادلب میں ایچ ٹی ایس کی قائم کردہ حکومت کو ایک ٹیکنو کریٹ انتظامیہ کہا جا سکتا ہے جس میں تعلیم، صحت جیسے بنیادی شعبے مقامی ادارے اور غیر ملکی امدادی ادارے چلاتے ہیں جب کہ ایچ ٹی ایس سکیورٹی اور معاشی پالیسی جیسے امور دیکھتی ہے، تاہم مڈل ایسٹ آئی کے مطابق ادلب پر ایچ ٹی ایس کی حکومت میں آزادیٔ اظہار، تشدد، بلاجواز حراست اور مخالفین کے خلاف کریک ڈاؤن جیسے اقدامات کی وجہ سے تنقید کا سامنا رہا ہے۔