تحریر: محمد رضا سید
پاڑا چنار میں شیعہ اکثریتی علاقوں کی ناکہ بندی کو 84 روز مکمل ہوچکے ہیں جبکہ ریاست کی بے حسی برقرار ہے اور اس دوران حملوں اور ادویات کی قلت سے 128بچوں سمیت 200 افراد جاں بحق ہوچکے ہیں، پاڑا چنار کے شہریوں کی ناکہ بندی اور حملوں کے دوران عوام کو پہنچنے والے نقصانات پر پاکستانی فوج سمیت وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے مکمل بے حسی نے مقامی شیعہ آبادی کو بے یار و مددگار سمجھنے پر مجبور کردیا ہے، پاڑا چنار میں فرقہ واریت کا بیج بونے والے جنرل غٰاء الحق اس دنیا میں موجود نہیں ہیں مگر وہاں بہنے والے خون کی حسابداری بہر حال انہیں بھی دینا ہوگی اور موجودہ مقتدر افراد کو بھی معافی نہیں مل سکے گی، وفاقی حکومت کی طرح خیبرپختنونخواہ کی حکومت بھی بے بس افراد کی مدد نہیں کررہے ہیں، سیاستدانوں کو اپنے ووٹ بینک کی فکر ہے اور ریاستی اداروں کو شیعہ مسلمانوں کے بہتے ہوئے خون کی پروا نہیں ہے کیونکہ امریکہ چاہتا ہے کہ فرقہ واریت چنگاری سلگتی رہے تاکہ مسلمان اُس ظلم پر توجہ مرکوز نہ کرسکیں جو غزہ اور شام میں کیا جارہا ہے، پاڑا چنار، گلگت بلتستان، کوئٹہ کے ہزارہ علاقے، ہنگو وغیرہ خصوصیت سے فرقہ واریت کی لپیٹ میں رہتے ہیں کیونکہ یہاں شیعہ آبادیوں یکجا ہیں اور ریاستی اداروں کا خیال ہے کہ متذکرہ علاقوں کے شیعہ مسلمان ایک پڑوسی ملک کی آواز پر زیادہ متوجہ ہوتے ہیں، جنرل ضیاء الحق نے ایک خاص منصوبے اور امریکی ایماء پر فرقہ واریت کو ایک ٹول کی طرح استعمال کیا تاکہ قوم مسلکی بنیادوں پر منظم ہو اور اُس کے سیاسی عزائم کو مردہ کردیا جائے۔
ہم یہاں اِن دونوں باتوں کا تجزیہ موجودہ حالات کی روشنی میں کرتے ہیں، شام سے ایران کی دستبرادری کے بعد مغربی ایشیاء اور مشرق وسطیٰ کے حالات میں جوہری تبدیلی آئی ہے، ایران کے رہبر آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے واضح اعلان کیا ہے کہ ایران کو خطے میں کسی پراکسی کی ضرورت نہیں ہے جو بھی مظلوم اپنے حق کیلئے قیام کرئے گا ایران اُس کیساتھ کھڑا ہوگا، ایران نے شام کے دلدل سے نکل کر مسلم ممالک کو میدان دیا ہے کہ وہ اسرائیلی جبر کے شکار مسلمانوں کیلئے اپنے مالی اور عسکری طاقت کو استعمال کرکے ثابت کریں کہ وہ ایران سے زیادہ بہتر مظلوم مسلمانوں کی مدد کرسکتے ہیں، ترکیہ معاشی اور عسکری حوالوں سے طاقتور ملک ہے، ترکیہ شام میں اپنا اثر و رسوخ قائم کرچکا ہے ترک قیادت اب بھی عثمانی خلافت پر فخر کرتی ہے، ترکیہ بجائے مسلمانوں پر جدید ترین اسلحہ استعمال کرئے، اسرائیل کے خلاف جہاد کی قیادت کرئے لہذا جب ایران آواز ہی نہیں دے رہا تو پاڑا چنار سے لیکر کراچی تک کے شیعہ کیوں پڑوسی ملک کی طرف متوجہ ہونگے، اب آئیں اس بات پر کہ فرقہ واریت کے ذریعے قوم کی سیاسی بیداری کو ختم کرنے کیلئے ایسے حالات پیدا کردیئے جائیں کہ پوری قوم مسلکی بنیادوں پر تقسیم کا شکار ہوکر مقتدر قوتوں سے اپنا حق نہیں مانگے، یہ جواز حقیقت کے قریب دکھائی دیتا ہے، ایسے حالات میں جب 26 اکتوبر کے عظیم سانحے سے دوچار ہوکر عوام نامعلوم افراد کی آستینوں پر اپنا لہو تلاش کررہی تھی عین اُس وقت پاڑا چنار کے لوگوں کا دہشت گردوں کے ہاتھوں بیدردی کیساتھ قتل کرایا جاتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے پورا ملک فرقہ واریت کی لپیٹ میں چلا جاتا ہے۔
افسوس کیساتھ کہنا پڑتا ہے ہماری مقتدرہ نے کھبی درست فیصلہ نہیں کیا سانحہ مشرقی پاکستان پر غور کریں، بھٹو کے عدالتی قتل کے پیچھے محرکات کا جائزہ لیں، ایم کیوایم کے خلاف آپریشنز کا جائزہ لیں، 9 مئی کو دیکھیں، 8 فروری کے سانحے کی پڑتال کریں یا 26 اکتوبر کے قتل عام کو روئیں، اِن سب کے پیچھے طاقتور کی شخصی آمریت نظر آئے گی، پاکستان کے ریاستی ادارے ہوش کے دامن کو ہاتھ سے نہ جانے دیں اور پاڑا چنار سے پشاور کا راستہ کھولنے کیلئے تمام گروہوں کے درمیان صلح کرائیں، اسلحہ واپس لینے کو راستے کھولنے سے مشروط کرنا عام لوگوں کی جان سے کھیلنے کے مترادف ہوگا، پاڑا چنار سے پشاور تک کا راستہ محفوظ بنانا ریاست کا کام ہے اگر یہ کام بھی فوج نہیں کرسکتی تو پھر قوم پر اتنا بڑا بوجھ کیوں ڈال رکھا ہے۔