پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان، جنہیں گزشتہ ماہ بدعنوانی کے الزام میں قید کی سزا سنائی گئی ہے، اُن کے حامیوں نے اس سزا دیئے جانے کے عمل کا موازنہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے کرتے ہیں جس طرح سے پاکستان میں حکام کی جانب سے عمران خان کو ستایا جارہا ہے، بہت سے لوگوں نے ان کی صورتحال کو ٹرمپ سے جوڑا ہے اور مقبول سابق وزیر اعظم کو جیل میں ڈالنے کا الزام حکومت پر لگایا ہے، خان کی حالت زار کو ٹرمپ کے دیرینہ حلیف اور مشیر رچرڈ گرینل نے بھی اجاگر کیا ہے، جنہوں نے گزشتہ سال کے آخر میں سوشل میڈیا پر عمران خان کو آزاد کرو کی مہم چلائی تھی، پاکستان کی ایک عدالت نے خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ خاتون کو بدعنوانی کا جرم میں 14 اور سات سال قید کی سزا سنائی، انہیں القادر ٹرسٹ کے ذریعے مبینہ طور پر رشوت کے طور پر زمین لینے اور وہاں غریب طلباء کیلئے اعلیٰ پائے کی یونیورسٹی قائم کرنے کے الزام میں سزا سنائی گئی تھی، تاہم خان اپنی بے گناہی کو برقرار رکھتے ہوئے، فاکس نیوز ڈیجیٹل کو خصوصی تبصروں میں نچلی عدالتوں کی جانب سے سنائی جانے والی سزاؤں پر دلچسپ ریمارکس پاس کیا ہے، عمران خان پر 100 سے زیادہ مقدمات بنائے گئے ہیں، جن کا وہ سامنا کر رہا ہے، خان کی سزا کے بارے میں فاکس نیوز ڈیجیٹل کے سوالات کے جواب میں پاکستان کے وفاقی وزیر برائے اطلاعات و نشریات، عطاء اللہ تارڑ نے خان کو نچلی عدالت کی جانب سے سزا سنانے کا دفاع کیا، 190ملین پاؤنڈ کا کیس پاکستان کی تاریخ کے سب سے بڑے کرپشن کیسز میں سے ایک ہے اور یہ ایک بڑا اسکینڈل ہے جس میں سابق وزیراعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو قصور وار پایا گیا ہے، یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ انہوں نے نہ صرف سرکاری عہدے کا استعمال کسی پراپرٹی ٹائیکون کو غیر قانونی احسان دینے کے لئے کیا، انہوں نے مزید کہا کہ یہ اعلیٰ ترین سطح کی کرپشن ہے اور سابق وزیراعظم کو کرپشن کے ناقابل تردید ثبوتوں کی بنیاد پر سزا سنائی گئی ہے، خان نے الزامات کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ ان کی 2023ء کی گرفتاری اور اس کے نتیجے میں سزا انہیں سیاسی عہدے پر واپس آنے سے روکنے کی سازش تھی۔
فاکس نیوز ڈیجیٹل کے سوالات کے جوابات سابق وزیراعظم خان کے ترجمان کے ذریعے آئے، خان نے اپنے اور ٹرمپ کے درمیان مماثلت کو نوٹ کرتے ہوئے کہا کہ دونوں نے ایک جیسے تجربات کا سامنا کیا ہے، آج دنیا کو ثابت قدم قیادت کی ضرورت ہے جو امن، جمہوریت اور انسانی حقوق کا علمبردار ہو اور میں امید کرتا ہوں کہ ان کی قیادت اس وژن میں اپنا حصہ ڈال سکتی ہے، دونوں ملکوں کے سرکاری حکام کے ساتھ ٹرمپ اور خان کے تجربات میں کلیدی مماثلت ہے اور ان کی کہانیاں ایک دوسرے کی عکاسی کرتی ہیں جو کہ اس سے بھی آگے ہیں، جہاں ٹرمپ نے اپنی میک امریکہ گریٹ اگین تحریک سے امریکی سیاسی منظر نامے کو تبدیل کیا، عمران خان نے اپنے نیا پاکستان ویژن سے عام پاکستانیوں کو متحرک کیا اور ٹرمپ کی طرح ہی خان نے سیاسی اشرافیہ کو ختم کردیا، اس کی بجائے اوسط شخص پر توجہ مرکوز کی، خان نے فاکس نیوز ڈیجیٹل کو بتایا کہ ان کی سیاسی جماعت ایک نظریاتی جماعت ہے جو پاکستان کے متنوع تانے بانے کی نمائندگی کرتی ہے، پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو ابتدائی طور پر تعلیم یافتہ ایلیٹ کی جماعت کے طور پر سمجھا گیا جو تبدیلی چاہتے ہیں لیکن عوام کے رسپانس نے اس تصور کو جلد ہی ختم کر دیا اور پی ٹی آئی کو پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت میں تبدیل کردیا جس میں زندگی کے تمام شعبوں کے لوگوں شمولیت ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری پالیسیاں میرٹ اور انصاف کو ترجیح دیتی ہیں، انہوں نے مزید کہا ہم تمام صوبوں، ذاتوں اور مذاہب کی نمائندگی کرتے ہوئے اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ پاکستان کے مستقبل کی تشکیل میں ہر آواز کا ایک مقام ہو جو پاکستان کو مساوات اور انصاف کے اصولوں کے تحت متحد کرتی ہے، لاہور کے ایک ویٹر زہیر احمد نے فاکس نیوز ڈیجیٹل کو بتایا عمران خان تمام نسلی گروہوں اور مذہبی فرقوں سے تعلق رکھنے والے متنوع ہجوم کی آواز بن گئے ہیں ہم نے کبھی ایسا لیڈر نہیں دیکھا جس کی اتنی نچلی سطح پر حمایت ہو یہی اس کی خوبصورتی ہے اور ہمیں یقین ہے کہ وہ اقتدار میں واپس آئیں گے اور ملک کو بہتر بنائیں گے۔