بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ اور سابق وزیراعلیٰ سردار اختر مینگل نے بدھ کو مستونگ میں 20 دنوں سے جاری احتجاجی دھرنا ڈرامہ ختم کرنے کا اعلان کر دیا ہے، ہزاروں بلوچ مظاہرین نے انسانی حقوق کی کارکن ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور دیگر خواتین کی گرفتاری کے خلاف 20 روز سے دھرنا دیا ہوا تھا، ماہ رنگ بلوچ کو گذشتہ ماہ جعفر ایکسپریس پر حملے کے بعد احتجاج کے دوران دیگر خواتین کے ساتھ حراست میں لیا گیا تھا، دھرنے کی قیادت کرنے والے سردار اختر مینگل نے دھرنا ختم کرتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ صرف بلوچستان کے عوام اور تاجروں کے مفاد میں کیا جا رہا ہے، جو سڑکوں کی بندش کی وجہ سے شدید متاثر ہو رہے ہیں، انہوں نے کہا کہ ہماری احتجاجی تحریک ختم نہیں ہوئی بس اس کی شکل بدل گئی ہے، یہ احتجاج اگلے مرحلے میں داخل ہو گا، اس سلسلے میں آئندہ کا لائحہ عمل 18 اپریل کو پارٹی کی مرکزی سینٹرل کمیٹی کے اجلاس میں طے کیا جائے گا، حکومت پاکستان نے 20 روزہ دھرنے کے دوران ماہ رنگ بلوچ سمیت دیگر بلوچ خواتین کو رہا نہیں کیا اور نہ ہی حکومت نے کسی مثبت ردعمل کا اظہار کیا، انہوں نے کہا کہ ہمارا احتجاج جاری رہے گا جب کہ صوبے بھر میں ریلیوں اور جلسوں کا انعقاد کیا جائے گا، انھوں نے کہا کہ ہم نے بلوچ خواتین کی ماوارائے آئین اور قانون گرفتاریوں کے خلاف لانگ مارچ کیا، احتجاج ہمارا جمہوری آئینی اور سیاسی حق تھا جس کی اجازت نہیں دی گئی اور تمام راستوں پر رکاوٹیں کھڑی کرکے حکومت نے خود پہیہ جام ہڑتال کی، سابق وزیر اعلیٰ کا کہنا تھا کہ دھرنے کے دوران کارکنوں پر تشدد کیا گیا جس پر ہم نے لکپاس کے مقام پر ہی دھرنا دے دیا ہمارے احتجاج میں عوام کے جم غفیر نے شرکت کی۔
بی این پی نے دھرنے کے مقام پر آل پارٹیز کانفرنس بھی منعقد کی جس میں پاکستان تحریک انصاف، جمعیت علما اسلام، نیشنل پارٹی، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی، جماعت اسلامی سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے مستونگ جا کر سرداراختر مینگل سے یکجہتی کا اظہار کیا، سردار اختر مینگل نے دھرنے سے اپنے خطاب میں پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی کے وزرا اور ارکان اسمبلی سمیت حکومتی جماعتوں پر سخت تنقید کی، حکومت کا مؤقف تھا کہ سکیورٹی خطرات کی وجہ سے لانگ مارچ کو کوئٹہ میں داخلے کی اجازت نہیں دی گئی، حکومت نے تھری ایم پی او کے تحت سردار اختر مینگل کی گرفتاری کے احکامات بھی جاری کیے تاہم بی این پی کے سربراہ نے گرفتاری نہیں دی، کوئٹہ چیمبر آف کامرس نے مقامی میڈیا کو بتایا کہ احتجاجی دھرنے کی وجہ سے روزانہ لاکھوں روپے کا معاشی نقصان ہو رہا تھا اور تاجروں نے شکایت کی کہ ان کے مال بردار ٹرک ایران یا افغانستان نہیں جا پا رہے تھے، یہ فیصلہ ایک دن بعد سامنے آیا جب ایک پاکستانی عدالت نے ماہ رنگ بلوچ کی حراست سے متعلق کوئی فیصلہ دینے سے انکار کر دیا اُن پر دہشت گردی، بغاوت اور قتل جیسے سنگین الزامات کے علاوہ عوامی نظم و ضبط خراب کرنے کا مقدمہ بھی درج ہے۔
پیر, اکتوبر 27, 2025
رجحان ساز
- پاکستان: عمران خان حکومت ختم کئے جانے کے بعد ملک میں غربت اور بیروزگاری میں اضافہ ہوا !
- ایران کا بینکنگ نظام خطرات سے دوچار ہے ملک کا بینک آئندہ دیوالیہ، بینک ملی نے انتظام سنبھال لیا
- سعودی شہریوں کی توہین پر اسرائیلی وزیرخارجہ نے معذرت کرلی مگر بات بہت آگے بڑھ چکی ہے !
- بلوچستان: ضلع دُکی میں پوست کی کاشت کرنے پر 75 زمینداروں کے نام فورتھ شیڈول میں شامل
- دہشت گردی کو بیرونی ایجنڈا قرار دینے سے مسئلہ برقرار رہتا ہے، پیشہ ورانہ پولیس کی ضرورت ہے
- ہینلے اینڈ پارٹنرز کا گلوبل انڈیکس میں پاکستان عالمی سرمایہ کاری کیلئے رسکی ملکوں میں شامل کردیا گیا !
- پاکستان میں رواں سال ابتک سائبر کرائم 35 فیصد اضافہ ہوا، ڈیجیٹل خواندگی کی کمی بنیادی وجہ ہے
- بلوچستان میں بدامنی ضلع نوشکی میں مسلح علیحدگی پسندوں کی دہشت گردی 2 پولیس اہلکار جاں بحق

