اقوام متحدہ کے ایک ماہر نے جمعرات کو کہا ہے کہ غزہ میں اسرائیلی فوج کی نسل کشی کے خلاف عالمی برادری تل ابیب پر ہتھیاروں کی فروخت پر پابندی عائد کرئے اور اس ملک کے ساتھ تجارتی اور مالی تعلقات منقطع کرنے کا مبالبہ کیا ہے، مقبوضہ فلسطینی علاقوں سے متعلق اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ فرانسسکا البانی نے جنیوا میں انسانی حقوق کی کونسل کو بتایا کہ اسرائیل، فلسطینیوں کے خلاف جارحیت کے دوران جدید تاریخ کی سب سے ظالمانہ نسل کشی کا ذمہ دار ہے، انہوں نے کہا کہ چودہ ماہ قبل خبردار کیا گیا تھا کہ اس نسل کشی کے پیچھے غزہ میں نوآبادیاتی منصوبے کے ایک بڑھتے ہوئے مرحلے کو مکمل کرنا ہے، واضح رہے کہ سات دہائیوں سے اسرائیلی فوج فلسطینی عوام کو نشانہ بنارہی ہے تاکہ فلسطینی سرزمین پر یہودیوں کی آبادکاری جا سکے اور اب یہ ہو رہا ہے اور ہمیں اسے روکنا چاہیے، مقبوضہ فلسطینی سرزمین کی صورتحال ابتر ہے، غزہ میں لوگ تصور سے زیادہ تکالیف برداشت کر رہے ہیں، اسرائیل کی جانب سے اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ البانی کو تنقید کا نشانہ بنا چکا ہے، اس ہفتے تل ابیب نے اقوام متحدہ کے مشن کے خلاف بیان جاری کیا جس میں اِن الزامات کی تردید کی گئی کہ اسرائیل نسل کشی میں ملوث ہے، اسرائیل نے اِن الزامات کو غلط اور جارحانہ قرار دیا، البانی نے اسرائیل پر الزام لگایا کہ وہ غزہ میں اپنی فوجی مہم کو نئے ہتھیاروں اور نگرانی کی ٹیکنالوجیز کو آزمانے کے موقع کے طور پر استعمال کر رہا ہے، اُنھوں نے کہا کہ اسرائیلی فوج مہلک ڈرون، ریڈار سسٹم اور بغیر پائلٹ کے دیگر ٹیکنالوجی استعمال کر رہی ہے تاکہ آبادی کو بغیر کسی روک ٹوک کے ختم کیا جاسکے، انہوں نے کہا کہ 40 سے زائد کمپنیاں غزہ میں یہودی آبادکاری اور فوجی کارروائیوں کی حمایت میں شریک ہیں، انہوں نے کہا کہ میری رپورٹ میں جن 40 اداروں کا نام لیا گیا ہے جو ایک ایسے نظام کی مثال ہے جو بہت سے لوگوں کو الجھا دیتا ہے، میں جس چیز کو بے نقاب کررہی ہوں وہ فہرست نہیں ہے یہ ایک نظام ہے اور اس پر توجہ دی جانی ہے۔
اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ فرانسسکا البانی نے کہا کہ اسلحہ ساز کمپنیوں نے اسرائیل کو جدید ہتھیار فراہم کرکے ریکارڈ منافع کمایا ہے، جن کی وجہ سے اسرائیل غزہ پر ہیروشیما کی طاقت سے چھ گنا زیادہ 85000 ٹن دھماکہ خیز مواد گرانے میں کامیاب ہوا ہے، انہوں نے کہا کہ ہمیں اس سلسلے کو تبدیل کرنا چاہیئے، دنیا میں قائم تمام ریاستیں اسرائیل کو ہتھیاروں کی فروخت پر مکمل پابندی عائد کریں، تجارتی معاہدوں کو معطل کریں اور بین الاقوامی قانون کی مبینہ خلاف ورزیاں کرنے پر اسلحہ ساز کمپنیوں کو قانونی طور پر جوابدہ ٹھہرانے کیلئے اقدامات کریں، خیال رہے غزہ جنگ 7 اکتوبر 2023 میں جنوبی اسرائیل کی کمیونٹیز پر حماس کے زیرقیادت حملے سے شروع ہوئی تھی، جس میں 1200 افراد ہلاک اور 250 کو یرغمال بنایا گیا تھا، غزہ میں صحت کے حکام کے مطابق اس حملے نے اسرائیل کی طرف سے سخت فوجی ردعمل کا اظہار کیا جس میں 57000 سے زیادہ فلسطینی شہید اور اس تعداد سے دوگنا زخمی ہوئے ہیں۔
بدھ, اکتوبر 15, 2025
رجحان ساز
- ہائبرڈ نظام کا نتیجہ پنجاب میں جان لیوا پولیس مقابلوں میں تشویشناک اضافہ ہوا، انسانی حقوق کمیشن
- برادر کُشی ہرگز قبول نہیں پاکستانی مقتدرہ کو سمجھنا ہوگا افغان عوام اور طالبان الگ الگ حقیقتیں ہیں
- پاکستانی فوج میں بعض افراد افغانستان کی سکیورٹی اور ترقی سے خوش نہیں، ذبیح اللہ مجاہد کی ہرزہ سرائی
- غزہ پر جارحیت کے دوسال سائبر حملوں سے 40 فیصد اسرائیلی انٹیلی جنس نظام متاثر یا سست پڑ گئے
- اسرائیل اور پاکستان کی سفارش کے باوجود صدر ٹرمپ نوبل امن پرائز کیوں نہ مل سکا؟ 😎😎
- امریکی صدر کے 20 نکات ردی دان کی نذر ہوگئے، حماس کے 8 نکات جنگ بندی کی بنیاد ہوں گے
- ایس آئی ایف سی کو آئین کیخلاف ادارہ قرار دینے پر ایمل ولی خان نے وزیر اعظم سے معافی مانگ لی!
- اورکزئی میں دہشت گردوں سے جھڑپ، ایک لیفٹیننٹ کرنل اور میجر سمیت 11 فوجی جوان شہید