تحریر: محمد رضا سید
روس کی وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ اس نے پیر کی رات بھر روس میں داخل ہونے کی کوشش کرنے والےیوکرین کے 55 ڈرونز کو تباہ کر دیا ہے، دریں اثنا یورپی یونین کے وزرائے خارجہ یوکرین کی حمایت اور روس پر پابندیوں پر بات چیت کیلئے برسلز میں ملاقات کر رہے تھے، روس کی وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ اس کے یونٹس نے پیر کی شب جنوبی اور جنوب مغربی روس پر یوکرین کے حملے کے دوران کم از کم 55 ڈرونز کو تباہ کر دیا ہے، ڈرون حملےاس وقت کئے گئےجب امریکہ نے یہ اشارہ دیا کہ وہ کریملن پر دباؤ بڑھا رہا ہے اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی اسٹیبلشمنٹ کیساتھ ہم آھنگی ظاہر کرتے ہوئے یوکرین جنگ ختم کرانے کے اپنے موقف سے یوٹرن لیتے ہوئے کیف کیلئےمالی امداد اور نئے ہتھیاروں کی فراہمی کا اعلان کیا ہے، صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے تصدیق کی ہے کہ امریکہ یوکرین کو مزید ہتھیار بھیجے گا اور یوکرین جنگ کے خاتمے پر بات چیت پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئےروس پر بھاری محصولات عائد کرنے کی دھمکی دی ہے، پیر کو وائٹ ہاؤس میں نیٹو کے سربراہ مارک روٹے سے ملاقات کے دوران خطاب کرتے ہوئے، ٹرمپ نے کہا کہ امریکہ اربوں ڈالر کا فوجی سازوسامان بھیجے گا، جس میں پیٹریاٹ ایئر ڈیفنس سسٹم اور دیگر میزائل بھی شامل ہیں، ٹرمپ نے کہا ہم ٹاپ آف دی لائن ہتھیار بنانے جا رہے ہیں جو نیٹو کو روس کے خلاف جنگ لڑنے کیلئے یوکرین کو دیئے جائیں گے۔
روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے چین کے صدرشی جن پنگ سے ملاقات کی ہے، جب کہ یورپی یونین کے وزرائے خارجہ ایک سربراہی اجلاس کیلئے برسلز میں جمع ہو رہے تھے جس میں یوکرین کیلئے بلاک کی حمایت اور روس پر سخت پابندیوں پر تبادلہ خیال کیا جائے گا، امریکی اسٹیبلشمنٹ نے صدر ٹرمپ کو اس بات پر راضی کرلیا ہے کہ وہ روس کو امریکی اور یورپی یونین کےتجویز کردہ جنگ بندی معاہدہ پر رضامند کرنے کیلئے ماسکو پر دباؤ بڑھائیں، امریکی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ نے وائٹ ہاؤس میں بیٹھے دونلڈ ٹرمپ کو روس کے خلاف50 دنوں میں انتہائی سخت محصولات عائد کریں، جس میں 100 فیصد ثانوی ٹیرف بھی شامل ہے، اس سے قبل صدر ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس پہنچنے پر کہا تھا کہ وہ 24 گھنٹے کے اندر یوکرین جنگ ختم کرادیں گے اور اس سلسلے میں سعودی عرب کی ثالثی میں روس اور یوکرین نے متعدد ملاقاتیں کیں مگر یوکرین کو یورپی ملکوں کی غیر معمولی سپورٹ حاصل ہونے کے بعد صدر ولادیمیر زیلنسکی نے امن کے راستے کو مسدود کرنا شروع کردیا، اس دوران یوکرین نے روس کے اندر میزائل اور ڈرونز حملے شروع کئے اور روس کی فضائیہ کو اچھا خاصہ نقصان پہنچایا لیکن روس نے خطرناک ہتھیار استعمال کرنے سے گریز کی پالیسی اختیار کی، 13جون 2025ء کو یوکرین کے صدر ریاض پہنچ گئے، سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اُمید کررہے تھے کہ یوکرینی صدر جنگ بندی معاہدے پر مذاکرات کریں گے اور تصفیے تک پہنچنے کی کوشش کامیاب ہوجائےگی مگر شہزادہ محمد بن سلمان اُس وقت حیرت زدہ رہ گئے جب یوکرین کے صدر دیمیر زیلنسکی نے جنگ بندی معاہدے پر بات چیت کرنے کے بجائے فقط جنگی قیدیوں کے تبادلے کیلئے ریاض کی مدد چاہی، اس سے قبل فروری 2025ء میں ریاض میں دونوں ملکوں کے درمیان جنگ بندی کیلئے مذاکرات شروع ہوئے تو یوکرین کے صدر دیمیر زیلنسکی نے مذاکرات میں شرکت نہیں کی اور ریاض پر واضح کردیا کہ جنگ بندی یوکرین کی شرائط پر ہونگی اُنھوں نے امن مذاکرات کے نتیجے میں جنگ بندی کی ڈیل کو مسترد کردیا اور ساتھ ہی سعودی عرب پر جابنداری کاالزام لگاتے ہوئے کہا کہ ریاض جنگ بندی کیلئے روسی شرائط کو منوانا چاہتی ہے۔
روس نے ریاض مذاکرات کے دوران چار بنیادی شرائط کو پیش کیا جس میں پہلی اور سب سے اہم شرط یوکرین کو نیٹو رکنیت کے حصول کی کوششوں سے مکمل طوردستبردار ہونے کی یقین دہانی کرانا تھی، کرائمیا اور ڈونباس کے کچھ حصے جہاں روسی شہری آباد ہیں اسکا کنٹرول ماسکو کے سپرد کرنا، مغربی پابندیوں کا خاتمہ اور یوکرین کے کچھ سرحدی علاقوں کو غیر فوجی علاقہ بنانا شامل تھے، اِن شرائط کو بڑےیورپی ملکوں اور یوکرین کے صدر دیمیر زیلنسکی نے یکسر مسترد کردیں جس کی وجہ سے ریاض مذاکرات ناکام ہوگئے، یوکرین جنگ بندکرانے کیلئے ابتک ہونے والی تمام سنجیدہ کوششوں کو بعض مغربی ملکوں کی مداخلت کی وجہ سے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
فوجی اور معاشی اعتبار سے بڑے یورپی ممالک مستقل جنگ بندی سے گریز کرتے رہے اور صرف 30 روزہ جنگ بندی پر اصرار کیا جسے روس نے یہ کہہ کر مسترد کردیا کہ اس طرح کیف کو اپنے فوجیوں کو دوبارہ متحرک کرنے اور دوبارہ مسلح کرنے کا موقع ملے گا اور جس سے یوکرین کی جنگی صلاحیتیں بڑھ جائیں گی جوکہ روسی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہوگا، ماسکو کے اس موقف نے یورپی ملکوں اور امریکی اسٹیبلشمنٹ کوروس کے خلاف یوکرین جنگ کی شدت بڑھانے کا موقع مل گیا، اسی دوران امریکہ بھر میں صدر ٹرمپ کے خلاف نوکنگ مہم میں کئی ملین افراد کی شرکت اور تیزی سے گرتی ہوئی صدر ٹرمپ کی مقبولیت نے انہیں مجبور کردیا کہ وہ امریکی اسٹیبلشمنٹ تعلقات کشیدہ کرنے کے بجائے اسی موجودہ مدتِ صدارت کو بچائیں، واشنگٹن کی تیزی سے بدلتی پالیسیوں نے صدر ٹرمپ کیلئے سیاسی میدان کوتاہ کردیا ہے وہ بھی دیگر امریکی صدور کی طرح امریکی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے اسیر بن چکے ہیں جبکہ یوکرین جنگ میں براہ راست یا بلواسطہ ملوث فریقین کواس ملک کی مصیبت زدہ عوام دور دور تک نظر نہیں آرہی ہیں، دنیا اس خیال کو ترک کردے کہ ٹرمپ جنگوں کا خاتمہ کرسکیں گے کیونکہ اُن کے قول اور فعل میں بنیادی تضاد ہے۔
منگل, دسمبر 2, 2025
رجحان ساز
- پارلیمنٹ کے پاس عدلیہ کو اپنے ماتحت رکھنے کا اختیار نہیں! حالیہ آئینی ترامیم پر اقوام متحدہ کا ردعمل
- ایران پر حملے کیلئے 20 سال تیاری کی، بارہ روزہ جنگ میں اسرائیل اور امریکہ دونوں کو شکست دی
- امریکہ سعودی عرب کو ایف 35 کا کمزور ورژن دے گا مارکو روبیو نے نیتن یاہو کو یقین دہانی کردی
- حزب اللہ کا چیف آف اسٹاف علی طباطبائی کے قتل کا بدلہ لینے کا اعلان خطے کی سیکورٹی کو خطرہ لاحق!
- امن منصوبہ یوکرین کیلئے آپش محدود، جنگ روکنے 28 نکاتی پلان پر 3 یورپی ملکوں کی رخنہ اندازی
- عالمی ایٹمی توانائی ایجنسی کی قرارداد بعد تہران قاہرہ مفاہمت کو ختم شدہ تصور کرتا ہے، عباس عراقچی
- فیصل آباد کیمیکل فیکٹری کے مالک و مینیجر سمیت 7 افراد کےخلاف دہشت گردی پھیلانےکا مقدمہ
- ایران میں پانی کا بحران شدت اختیار کرگیا، بدانتظامی نے تہران کے شہریوں کی زندگی مشکل بنادی !

