تحریر: محمد رضا سید
پاکستان میں ہر گزرتے دن کیساتھ امن و امان کا مسئلہ سنگین تر ہوتا جارہا ہے، رواں ہفتے پنجاب کے علاقے مرید کے میں ہزاروں مظاہرین کیساتھ رینجرز اور پولیس کی چھڑپوں کے بعد بدھ کی شام خیبرپختونخوا کے ضلع باجوڑ میں نامعلوم حملہ آوروں نے وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے قبائلی اضلاع اور پاکستان کی قومی اسمبلی کے رکن مبارک زیب خان کے گھر پر حملہ کیا ہوا ہے، اس سے قبل تحریک لبیک کے خلاف سکیورٹی فورسز کے کریک ڈاؤن میں پولیس کے ایک ایس ایچ او سمیت متعدد افراد جاں بحق اور سینکڑوں زخمی ہوئے جبکہ تحریک لبیک نے لاہور ہائیکورٹ میں لاشوں کو تدفین کیلئے وارثین کے سپرد کرنے کیلئے لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کیا ہے، وزیراعظم پاکستان کے معاون خصوصی کے گھر پر حملے سے متعلق پولیس کا کہنا ہے کہ واقعہ بدھ کی شام پیش آیا، تاہم حملے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا، قانون ساز کے گھر پر یہ مئی کے مہینے سے اب تک یہ تیسرا حملہ تھا، جس میں ایک کار کو نقصان پہنچا ہے، پولیس حکام اور مقامی رہائشیوں نے میڈیا کو بتایا کہ نامعلوم حملہ آوروں نے مغرب کی نماز کے بعد خار تحصیل کے علاقے شاہ نارے میں مبارک زیب خان کی رہائش گاہ پر ہینڈ گرینیڈ پھینکا، جس سے گھر کے اندر کھڑی ایک گاڑی کو نقصان پہنچا، خار پولیس اسٹیشن کی ایک ٹیم فوراً ایم این اے کے گھر پہنچ گئی، واقعے کی وجوہات جاننے اور ملوث افراد کی شناخت کیلئے تفتیش جاری ہے، مبارک زیب خان وزیرِ اعظم کے معاونِ خصوصی برائے قبائلی اضلاع بھی ہیں، انہوں نے اپنے گھر پر حملے کی تصدیق کی ہے، انہوں نے کہا کہ میرے گھر کے ساتھ واقع مہمان خانے پر ایک بار پھر دستی بم سے حملہ کیا گیا، مگر اللہ کے فضل سے کسی جانی نقصان کی اطلاع نہیں ملی، اب تک کسی نے حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے، یہ 14 مئی کے بعد ان کے گھر پر ہونے والا تیسرا ایسا واقعہ ہے، پچھلے چند ہفتوں میں خیبرپختونخواہ میں ضم ہونے والے وفاق کے زیرانتظام قبایلی اضلاع میں شدت پسندوں کے حملوں اور سکیورٹی آپریشنز میں واضح تیزی آئی ہے، سرحدی جھڑپوں نے صورتِ حال کو مزید کشیدہ کیا، خاص طور پر کُرم، اورکزئی، اور کچھ سرحدی حصّوں میں۔ مقامی نقلِ مکانی اور شہری نقصانات بھی بڑھے ہیں۔
رواں ماہ اکتوبر میں شمالی وزیرستان اور جنوبی وزیرستان میں فوجی آپریشنز جاری رہے، آپریشنز کے باعث علاقے میں محدود پیمانے پر مقامی نقل مکانی ہوئی ہے جبکہ کاروباری صورتحال خراب ہوئی ہے اور تعلیمی و بنیادی خدمات پر اثرات گزشتہ ماہ سے ہی برقرار ہیں، جنوبی وزیرستان میں حالات زیادہ کشیدہ ہیں جہاں فوجی کارروائیوں میں ڈرونز اور پاکستان کی فضائیہ بھی حصّہ لے رہی ہے، جس کی وجہ سے صوبہ خیبر پختونخواہ میں شدید کشیدگی موجود ہے اور یوں لگتا ہے کہ صوبے کی حکومت، سرحدی اضلاع میں فوجی کارروائیوں سے خوش نہیں کیونکہ اس سے عام لوگ متاثر ہورہے ہیں، فوجی کارروائیوں کے دوران بعض اوقات بچے اور خواتین بھی جاں بحق ہوتے ہیں جسکی وجہ سے عوام میں بے چینی پیدا ہوتی ہے اور لوگ سکیورٹی فورسز کے خلاف احتجاج کرتے ہیں جس کے منفی سیاسی مضمرات پیدا ہوتے ہیں اور صوبے کا امن برباد ہوتا ہے، خیبرپختونخوا کی سیاسی حکومت صوبے میں فوجی کارروائیوں کو شدت پسندی کا مستقل حل نہیں سمجھتی ہے، اس صوبے میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت قائم ہے، جس کے بانی چئیرمین عمران خان کو ہائبرڈ حکومت نے سیاسی بنیادوں پر سالوں سے قید رکھا ہوا ہے، پاکستان تحریک انصاف اس ملک کی سب سے بڑی جماعت ہے جسے اکثریت ملنے کے باوجود پنجاب اور وفاق میں حکومت نہیں بنانے دی گئی جبکہ اس جماعت کی خواتین اور اقیتوں کی مخصوص نشتیں پیپلزپارٹی، مسلم لیگ(ن) اور دیگر سیاسی جماعتوں میں انعام کے طور پر تقسیم کردیں گئیں البتہ خیبرپختونخواہ میں پاکستان تحریک انصاف کو واضح اکثریت حاصل ہے جہاں بدھ کے روز نو منتخب وزیراعلیٰ سہیل آفریدی نے عوام کے بڑے اجتماع کیساتھ گورنر ہاؤس پہنچے اور اپنے عہدہ کا حلف اٹھایا، صوبہ خیبرپختونخواہ میں حالیہ سیاسی تبدیلی کو وفاق کی جانب سے ملک کو ہارڈ اسٹیٹ بنانے کےاعلان کا ردعمل سمجھا جارہاہے، یہ صورتحال خطرناک عزائم کا پیش خیمہ بھی ہوسکتی ہے جبکہ سرحدوں کے اُس پار ہمارے دینی بھائیوں کے درمیان پاکستان سے نفرتیں بڑھ رہی ہیں، افغان طالبان ملک بھر میں پاکستان کے خلاف منفی جذبات پیدا کررہے ہیں جبکہ پاکستان میں بھی اس سے کچھ مختلف نہیں ہورہا ہے، افغان مہاجرین کے خلاف کریک ڈاؤن سے افغانستان میں غلط پیغام پہنچ رہا ہے۔
پاکستان اور افغانستان کے درمیان قطر کی کوششوں سے عارضی بندی ہوچکی ہے کابل پر پاکستانی فضائیہ کی کارروائیوں نے افغان پشتونوں کے درمیان پاکستان مخالف جذبات پیدا کئے ہیں، یہ صورتحال سنگینی کی خبر دے رہی ہے، دونوں ملکوں کو اپنی اپنی ذمہ داریاں سمجھنا ہونگی، دنیا جانتی ہے کہ افغانستان سے شدت پسندوں کو پاکستان فوج پر حملوں کیلئے بھیجا جارہا ہے جودنیا کی چند بہترین شمار ہونے والی فوج کے جوانوں وافسران کو قتل کررہے ہیں، یہ ممکن ہی نہیں کہ اس صورتحال میں ریاست پاکستان خاموش رہے، نوشتہ دیوار ہے کہ زیادہ دیر افغانستان دہشت گردوں کی پشت پناہی نہیں کرسکیں گے، وقت آن پہنچا ہے کہ افغان طالبان دہشت گردوں سے پیچھا چھڑوائیں اور اگر وہ دہشت گردوں سے نمٹنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تو باہمی عسکری تعاون سے دہشت گردوں کی سرکوبی کیلئے مشترکہ آپریشنز کریں، ایسی خبریں گردش کرتی رہی ہیں کہ طالبان قائد ملّا ہیبت اللہ اخونزادہ افغانستان میں موجود پاکستانی طالبان کے خلاف کارروائی میں رکاوٹ ہیں اور اس حوالے سے افغان طالبان کے درمیان بھی اختلافات موجود ہیں، جدید سیاسی نظریات کے حامل افغان طالبان کا کردار اس صورتحال میں مزید بڑھ جاتا ہے وہ اپنے قائد اخونزادہ کو بتائیں کہ وہ کٹھ پتلیوں کے ذریعے پاکستان پر اثرانداز ہونے کی پالیسیوں کو ترک کریں، جس سے خطے میں امن قائم ہوگا۔
جمعرات, اکتوبر 23, 2025
رجحان ساز
- ہینلے اینڈ پارٹنرز کا گلوبل انڈیکس میں پاکستان عالمی سرمایہ کاری کیلئے رسکی ملکوں میں شامل کردیا گیا !
- پاکستان میں رواں سال ابتک سائبر کرائم 35 فیصد اضافہ ہوا، ڈیجیٹل خواندگی کی کمی بنیادی وجہ ہے
- بلوچستان میں بدامنی ضلع نوشکی میں مسلح علیحدگی پسندوں کی دہشت گردی 2 پولیس اہلکار جاں بحق
- شہباز شریف نے وزیراعلیٰ سہیل آفریدی کی عمران خان سے ملاقات کیلئے انتظامات کرنیکی ہدایت !
- پاکستان میں انٹرنیٹ سروس متاثر وفاقی حکومت نے ایک بار پھر سمندر میں کیبل خرابی سے جوڑ دیا
- فرانسیسی دارالحکومت پیرس میں لوور کے عجائب گھر سے چور 7 منٹ میں انمول زیورات لے اڑے
- ہندوستان میں بغیر جوڑے کی شادیاں، موسیقی، رقص، تفریح سے بھرپور رنگین رات اور کہانی ختم
- واٹس ایپ صارفین کی جاسوسی، اسرائیل پر امریکی عدالت کی نوازش جرمانہ کم کرکے 40 لاکھ کردیا