تحریر: محمد رضا سید
امریکی صدر ٹرمپ اور سعودی ولی عہد محمد بن سلمان (ایم بی ایس) کے درمیان گزشتہ ہفتے ہونے والی ملاقات اس وقت کشیدگی کا شکارہوگئی جب امریکی صدرنے سعودی عرب کے ابراہیم معاہدوں میں شمولیت اور اسرائیل کیساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے امکانات پر گفتگو کی، اس معاملے سے باخبر دو امریکی اہلکاروں اور ایک ذریعے کے مطابق صدرٹرمپ نےسعودی ولیعہد محمد بن سلمان سےمطالبہ کیا کہ اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لائیں اور ابراہیمی معاہدے میں باقاعدہ شمولیت اختیار کریں، جو صدر کے داماد اور سیاسی مشیر جارڈ کشنر کے ذریعے طے پائے تھا، ملاقات تناؤ کا شکار ہوگئی جب محمد بن سلمان نے ٹرمپ کے سامنے اپنا موقف پیش کیا، سعودی شہزادے نے صدر کو بتایا کہ وہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو بہتر نہیں بنا سکتے کیونکہ ان کی مملکت میں عوامی رائے غزہ کی مہلک جنگ کے بعد اسرائیل کے خلاف بہت منفی ہے۔
امریکی صدر ٹرمپ سمجھتے تھے کہ غزہ میں جنگ کے خاتمے پر سعودی،اسرائیلی تعلقات کی بحالی کی جانب پیش رفت ہوگی، استقبالیہ تقریب خوشگوار نظر آئی اور میڈیا کےروبرو دونوں نے ایک دوسرے کی تعریف بھی ، اہلکاروں کا کہنا ہے کہ دونوں رہنماؤں نے اسرائیل سے تعلقات کے موضوع پر اختلاف ظاہر نہیں ہونے دیا لیکن ان کی بند کمرے کی ملاقات کشیدہ رہی ٹرمپ ایم بی ایس کی جانب سے معاہدہ ابراہیمی میں فلسطینی ریاست کے قیام تک اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے کی مخالفت سن کر مایوس ہوئے، وائٹ ہاؤس کے اہلکاروں نے ملاقات سے پہلے ولی عہد کو بتایا کہ ٹرمپ سعودی عرب کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے میں پیش رفت کی توقع رکھتے ہیں،جس کے بعد ولیعہد کے چہرے پر فکرمندی نوٹ کی گئی۔
امریکی اہلکاروں کا کہنا ہے 18نومبر کی ملاقات کے دوران ٹرمپ وہ تھے جنہوں نے اس مسئلے کو اٹھایا اور سعودی ولی عہد محمد بن سلمان پر زور دیا کہ وہ ابراہیمی معاہدوں میں شامل ہوں، تین امریکی اہلکاروں نے امریکی میڈیا ایکسوس کو بتایا اس مقام پر گفتگو میں تناؤ پیدا ہوا جب ٹرمپ نے دباؤ ڈالا تو ایم بی ایس نے ٹرمپ کو جواب میں وضاحت کی کہ اگرچہ وہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر آنے کے عمل کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں لیکن وہ اس وقت ایسا نہیں کر سکتے کیونکہ سعودی عوامی رائے غزہ کی جنگ کے بعد اسرائیل کے خلاف انتہائی منفی ہے، انہوں نے کہا کہ سعودی معاشرہ اس طرح کے اقدام کیلئے ابھی تیار نہیں ہے، ایک ذرائع نے جو ملاقات کی تفصیلات جانتا تھا اور ایک امریکی اہلکار نے کہا ٹرمپ اور ایم بی ایس کے درمیان بات چیت شائستگی کے دائرے میں رہی لیکن الفاظوں میں تلخی آگئی۔
ذرائع نے کہا ایم بی ایس ایک مضبوط آدمی نظر آئے ہیں نروس ہوئے بغیر اپنی بات پر قائم رہنے کی کوشش کی، ایم بی ایس نے مطالبہ کیا کہ سعودی عرب کے ساتھ امن مذاکرات کے بدلے اگراسرائیل کو ناقابل واپسی، معتبر اور وقت کی قید کیساتھ فلسطینی ریاست کے قیام پر رضامندی کا اعلان کرئے ، ایم بی ایس نے اس بات کو ملاقات کے بعد عوامی طور پر بھی کہا، ایم بی ایس اس قبل بھی اپنے اس موقف کا اعلان کرچکے ہیں ساتھ ہی اُنھوں نے کہا کہ 1967ء کی سرحدوں کے مطابق آزاد فلسطینی ریاست کے قیام سے پہلے اگر میں اسرائیل سے تعلقات کی بات کروں تو سعودی نوجوان مجھے قتل کردیں جبکہ غاصب اسرائیل کسی بھی فلسطینی ریاست کے قیام کی مخالفت کرتاہے حالانکہ اوسلو معاہدے میں اسرائیل آزاد فلسطینی ریاست کا مطالبہ تسلیم کرچکا ہے، اوسلو معاہدے میں اسرائیل نے عرب علاقوں میں یہودی بستیاں قائم نہ کرنے کا عہد کیا تھا لیکن اوسلو معاہدہ کی اسرائیل نے پاسداری نہیں کی اور عرب علاقوں میں متعدد یہودی بستیاں قائم کرچکا ہے حالانکہ اوسلو معاہدہ کی ضمانت بھی امریکہ نے دی تھی۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی سوچ ہے کہ ایران کا جوہری پروگرام پیچھے جا چکا ہے اور غزہ میں بھی جنگ ختم ہو چکی ہے لہذا اِن کیلئےبہت اہم ہے کہ تمام مشرق وسطیٰ کے ممالک ابراہیمی معاہدے میں شامل ہوں، جو اسرائیل کی سلامتی کو یقینی بنانے کیلئے ناگزیر ہے، ایف 35 طیارے سعودی عرب کو دینے کے اعلان کی اسرائیل نے کھل کر مخالفت کی ہے جس کے بعد امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو سے ٹیلی فون پربات چیت کی جس میں یقین دلایا کہ سعودی عرب کو ایف-35 کا کمزور ورژن دیا جائیگا ، روبیو نے اسرائیلی وزیراعظم کو یقین دہانی کرائی کہ سعودی عرب کے ساتھ ایف-35 کا معاہدہ اسرائیل کی فوجی برتری کو متاثر نہیں کرئے گی کیونکہ امریکی قانون میں درج ہے کہ مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کی فوجی برتری کو قائم رکھا جائے، اسی قانون کا سہارا لیتے ہوئے امریکہ نے ایران کے ایٹمی مراکز کو بی 2بمبار طیاروں سے نشانہ بنایا حالانکہ یہ آپریشن امریکہ کو مہنگاپڑا۔
سعودی ولیعہد محمد بن سلمان نے ایک ٹریلین ڈالر کی امریکہ میں سرمایہ کاری کرنے کا وعدہ کرکےٹرمپ کی بیہودہ حرکات سے بچ گئے ہیں مگر مستقبل قریب میں امریکی حکام سعودی عرب پر دباؤ بڑھائیں گے، سعودی سفارتکاری کی کامیابیوں میں محمد بن سلمان کا بڑا حصّہ ہے، جنھوں نے پاکستان کیساتھ دفاعی معاہدہ کرکے امریکہ سے اہم نان نیٹو اتحادی کا درجہ حاصل کرلیا اور پاکستان کی موجودہ سول اور ملٹری قیادت کو ایک بار پھرٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا ہے، امریکہ نے اسرائیل کو ایف 35 کا کمزور ورژن دینے کی خفیہ معلومات سعودی عرب کو یہ باور کرانے کیلئے جاری کی ہے کہ مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کے مقابلے میں سعودی عرب کی حیثیت دوسرے درجے کی ہے۔
منگل, دسمبر 2, 2025
رجحان ساز
- پارلیمنٹ کے پاس عدلیہ کو اپنے ماتحت رکھنے کا اختیار نہیں! حالیہ آئینی ترامیم پر اقوام متحدہ کا ردعمل
- ایران پر حملے کیلئے 20 سال تیاری کی، بارہ روزہ جنگ میں اسرائیل اور امریکہ دونوں کو شکست دی
- امریکہ سعودی عرب کو ایف 35 کا کمزور ورژن دے گا مارکو روبیو نے نیتن یاہو کو یقین دہانی کردی
- حزب اللہ کا چیف آف اسٹاف علی طباطبائی کے قتل کا بدلہ لینے کا اعلان خطے کی سیکورٹی کو خطرہ لاحق!
- امن منصوبہ یوکرین کیلئے آپش محدود، جنگ روکنے 28 نکاتی پلان پر 3 یورپی ملکوں کی رخنہ اندازی
- عالمی ایٹمی توانائی ایجنسی کی قرارداد بعد تہران قاہرہ مفاہمت کو ختم شدہ تصور کرتا ہے، عباس عراقچی
- فیصل آباد کیمیکل فیکٹری کے مالک و مینیجر سمیت 7 افراد کےخلاف دہشت گردی پھیلانےکا مقدمہ
- ایران میں پانی کا بحران شدت اختیار کرگیا، بدانتظامی نے تہران کے شہریوں کی زندگی مشکل بنادی !

