ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کا کہنا ہے کہ تہران جنگ شروع نہیں کرے گا لیکن اایران کسی کی دھونس میں نہیں آئیگا اور کسی مہم جوئی کا بھرپور جواب دیگا، رئیسی نے ایک بڑے اجتماع سے خطاب میں کہا کہ ہم نے کئی بار کہا ہے کہ ہم کسی جنگ کا آغاز نہیں کریں گے لیکن اگر کوئی ملک یا ظالم طاقت ایران کو دھونس دینا چاہے گی تو اس کا سختی سے جواب دیا جائے گا، جمعہ کو جنوبی صوبے ہرمزگان کے شہر مناب میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ایران کی فوجی طاقت مغربی ایشیا کے ممالک کیلئے کوئی خطرہ نہیں ہے لیکن یہ سلامتی کا ایک ذریعہ ہے جس پر علاقائی ریاستیں بھروسہ کر سکتی ہیں، رئیسی نے کہا کہ دشمن ایران کے خلاف دھمکی کی زبان کا سہارا لیتے تھے اور یہاں تک کہتے تھے کہ ایک فوجی آپشن میز پر ہے لیکن اب وہ اعلان کرتے ہیں کہ وہ ایران کے ساتھ کسی قسم کا تصادم نہیں چاہتے، صدر مملکت نے اسلامی انقلابی گارڈز کور کی بحریہ کی ایک نمائش کے دورے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ دشمن ایرانی ماہرین اور ماہرین کی اس طرح کی اختراعات کو برداشت نہیں کر سکتے۔
امریکی حکام نے حالیہ دنوں میں عراق اور شام کے اندر ایرانی اہداف کے خلاف حملوں کا سلسلہ شروع کرنے کے منصوبے کی بات کی ہے، یہ جوابی حملہ گزشتہ ہفتے کے آخر میں اردن میں تین امریکی فوجی ہلاکت کے جواب میں کیا گیا ہے، امریکی صدر جو بائیڈن نے اس حملے کا ذمہ دار ایرانی حمایت یافتہ گروہوں کو قرار دیا جو بنیادی طور پر عراق میں مقیم ہیں، اس حملے میں کم از کم 34 زخمی بھی ہوئے، ایران نے خطے میں امریکی افواج پر حملوں میں ملوث ہونے کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ علاقائی مزاحمتی گروپ تہران سے احکامات نہیں لیتے اور نہ ہی اسلامی جمہوریہ فلسطینی عوام کے دفاع میں انتقامی کارروائیاں کرنے کے ان کے فیصلوں میں کوئی کردار ادا کرتا ہے۔