پاکستان کے ممتاز سیاسی مبصر پروفیسر حسین شہید سہروردی کہتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمٰن کی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بہت طویل دوستی رہی ہے۔ لہذٰا اتنی جلدی سائیڈ بدلنا ممکن نہیں ہو گا، غیرملکی میڈیا سے کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ کے پاس اب بھی ترپ کے پتے اتنے زیادہ ہیں کہ وہ مولانا کو راضی کر سکتے ہیں، اُن کے بقول مولانا محض پیالی میں طوفان لانے کی کوشش کر رہے ہیں اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اپوزیشن میں بیٹھنے کا اعلان بھی واپس لے لیا جائے گا، اُن کا کہنا تھا کہ مولانا نے اپنی پریس کانفرنس میں دھاندلی کے الزامات عائد کرتے ہوئے احتجاج کا اعلان تو کیا ہے لیکن اُنہوں نے کہیں یہ نہیں کہا کہ وہ پارلیمان میں تعاون نہیں کریں گے یا وہ بائیکاٹ کر رہے ہیں، یہ بہت مثبت بات ہے، حسین شہید سہروردی کہتے ہیں کہ مرکز میں جو حکومت بننے جا رہی ہے اسے پی ڈی ایم ٹو کہا جا رہا ہے، یہ وہ ساری جماعتیں ہیں جن کے ساتھ مولانا کی قربتیں رہی ہیں لہذٰا یہ بہت مشکل ہو گا کہ مولانا ان کے خلاف جائیں۔
واضح رہے خیبرپختونخوا کے علاقے ڈیرہ اسماعیل خان، ٹانک، کرک، بنوں اور کچھ دیگر اضلاع کو جمعیت علمائے اسلام (ف) کا گڑھ سمجھا جاتا تھا۔ تاہم نہ صرف مولانا کو ڈیرہ اسماعیل خان میں اپنی آبائی نشست سے شکست ہوئی۔ بلکہ دیگر اضلاع میں بھی جے یو آئی (ف) خاطر خواہ کارکردگی نہیں دکھا سکی، بعض حلقے یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ نوجوان ووٹرز نے خیبرپختونخوا میں فیصلہ کن کردار ادا کیا اور مولانا فضل الرحمٰن کے ووٹرز بڑی تعداد میں باہر نہیں نکلے، حسین شہید سہروردی کہتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمٰن کو خیبرپختونخوا میں شکست کی وجہ گزشتہ دو برس سے اُن کی طرزِ سیاست ہے جس میں وہ مسلسل ایک سیاسی جماعت کو نشانہ بنا رہے تھے۔