تحریر: محمد رضا سید
پاکستان ایک بار پھر تباہ کن سیلاب کی لپیٹ میں ہے، یہ ایک الم ناک اور بار بار پیش آنے والا سانحہ عالمی سطح پر موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجہ ہے اور جنوبی ایشیائی ملکوں میں گزشتہ برسوں سےاب یہ معمول بنتا جا رہا ہے،موسماتی تبدیلیوں میں بڑے صنعتی ملکوں کے مقابلے میں پاکستان دنیا کے ان ملکوں میں شامل ہے جن کا کاربن ڈائی آکسائیڈ اور دیگر گرین ہاؤس گیسوں کے عالمی اخراج میں حصّہ تقریباً 0.8فیصد سے 1فیصد کے درمیان بنتاہے جبکہ موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں غیر معمولی مون سون بارشوں اورتباہ کُن سیلابوں سے پاکستان سب سے زیادہ نقصان اُٹھانے والا ملک بن چکاہے ، رواں سال آنے والے سیلاب نےپورے ملک میں تباہی مچادی ہے، جس کے باعث انسانی جانوں کا ضیاع، لاکھوں افراد کی دربدری اور بنیادی ڈھانچے کی بربادی سامنے آئی ہے اور یہ سلسلہ جاری ہے، ہم ابھی سندھ میں سیلابی ریلوں سے نقصانات کے بارے میں پیشگی کچھ نہیں کہہ سکتے لیکن یہ اندازہ ضرور لگاسکتے ہیں کہ سندھ میں خیبرپختونخوا اور پنجاب سے زیادہ نقصان ہوگا جہاں سیلابی پانی سمندر میں گرتا ہے۔
پاکستان میں حالیہ سیلاب انسانی المیے سے بڑھ کر یہ آفت مالی لحاظ سے بھی بھاری نقصانات کا باعث بنی ہے اورجس کی وجہ سےپاکستان کو طویل المدت غذائی سلامتی کیلئے سنگین خطرے میں پڑ چکی ہے، پاکستان کا زرعی شعبہ اقتصادی اور سماجی حوالے سے ریڑھ کی ہڈی ہے اور اس کے تباہ کن اثرات آئندہ سالوں تک محیط ہونگے ، پاکستان کا زرعی شعبہ ملکی جی ڈی پی کا تقریباً 18.9 فیصد ہے اور 38 فیصد سے زائد مزدور طبقے کو روزگارفراہم کرتا ہے، سیلاب نے اس اہم شعبے کو کئی طریقوں سے تباہ کیا ہے، گندم، چاول، گنا اور کپاس جیسی اہم نقد آور اور غذائی فصلیں مکمل طور پر تباہ ہو گئی ہیں، اس سے نہ صرف کسانوں کی آمدنی ختم ہوئی ہے بلکہ خوراک کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگی ہیں، جس کا سب سے زیادہ اثر غریب طبقے پر پڑے گا، دیہی خاندانوں کیلئے مویشی بنیادی سرمایہ اور غذائی ذریعہ ہیں، اطلاعات کے مطابق لاکھوں جانور سیلاب میں ہلاک ہو گئے ہیں، جس سے روزگار اور دودھ و گوشت جیسی غذائی ضروریات دونوں شدید متاثر ہوئی ہیں،دریا کناروں سے باہر آچکے ہیں ہزاروں دیہات ڈوب گئے اورپانی راستے میں آنے والی ہر چیز کو بہا لے گیا، انسانی نقصان ناقابلِ تلافی ہے، انسانی جانیں ضائع ہوئیں اور لاکھوں افراد اپنے گھروں سے محروم ہوکر عارضی خیموں میں پناہ لینے پر مجبور ہیں جہاں صاف پانی، خوراک اور طبی سہولیات کی شدید کمی ہے، مالی نقصان کا تخمینہ اربوں ڈالر لگایا جا رہا ہے، جو ایک ایسی معیشت کیلئے تباہ کن ہے جو پہلے ہی سنگین بحران کا شکار ہے، سڑکیں، پل، اسکول اور اسپتال تباہ ہو گئے ہیں، جس سے ترقیاتی عمل بری طرح متاثر ہوا ہے اور مقامی آبادی تنہائی اور کمزوری کا شکار ہو گئی ہےحکومتوں اور سرکاری اداروں نے وہ مدد فراہم نہیں کی جس کے سیلاب زدگان متقاضی تھے،سب سے زیادہ تباہی والے صوبہ پنجاب میں حکمرانوں اور سرکاری ملازمین نے امداد سے زیادہ ٹک ٹاک بنانے پر زور دیا ہے۔
سیلابی پانی نے نہروں اور آبی راستوں کے جال کو تباہ کر دیا ہے، زمین اور انفراسٹرکچر کو طویل مدتی نقصان پہنچا ہے، زرعی انفراسٹرکچر کو پہنچنے والے نقصان کی بھرپائی آسان نہیں ، سیلاب زرخیز مٹی بہا لے گیا ہے بعض علاقوں میں زمین پر ریت اور گاد کی تہہ بیٹھ گئی ہے، جس سے وہ کئی برسوں تک قابلِ کاشت نہیں رہے گی، یہ طویل المدتی نقصان زرعی پیداوار کو کئی برسوں کیلئے خطرے میں ڈال رہا ہے، سیلاب کی آفت ایک ایسے وقت پر آئی ہے جب پاکستان پہلے ہی خوراک کی کمی کا شکار تھا، اقوام متحدہ کی تنظیم برائے خوراک و زراعت کے مطابق سیلاب سے قبل بھی ملک میں تقریباً 40 لاکھ ٹن خوراک کی کمی تھی موجودہ تباہی نے صورتحال کو ایک سنگین غذائی بحران کی طرف دھکیل دیا ہے۔
پاکستان کو درپیش بڑی تباہی کے وقت بین الاقوامی تعاون محض مفید نہیں بلکہ لازمی ہوتاہے، موسماتی تبدیلیوں کے نتیجے میں سیلاب قدرتی آفت ہے عالمی برادری پر فرض ہے کہ وہ پاکستان کو پہنچنے والے نقصان کے ازالے کیلئے آگے بڑھے تاہم عالمی برادری سرد مہری کا شکار ہے، یہ رویہ ناقابل برداشت ہے کیونکہ اس کے ذمہ دار مغربی ممالک اور اب چین بھی ہے، 2010 کے سیلاب کے مقابلے میں پاکستان کو اس مرتبہ خاطر خواہ عالمی امداد اور ہمدردی حاصل نہیں ہو رہی، اس کی وجوہات میں ایک عالمی معاشی بحران بھی ہے، روایتی طور پر امداد دینے والےمغربی ممالک خود کساد بازاری، مہنگائی اور یوکرین جنگ جیسے مسائل کا سامنا کر رہے ہیں اس باعث عالمی امدادی کیلئےبجٹ محدود ہو گئے ہیں، پاکستان میں بار بار آنے والی موسمیاتی آفات نے عالمی سطح پر ایک تھکن پیدا کر دی ہے، جہاں ہر سال ہنگامی امداد کی ضرورت عطیہ دہندگان کے حوصلے پست کررہی ہے، مغربی ممالک اور اداروں کے ساتھ پاکستان کے پیچیدہ تعلقات بھی امداد کی رفتار اور مقدار پر اثر انداز ہوتے ہیں، سیاسی عدم استحکام اور طرزِ حکمرانی پر خدشات بھی براہ راست امداد کے بجائے بیوروکریسی زدہ عالمی اداروں کے ذریعے امداد کی ترسیل کا باعث بنتے ہیں، آج کل عالمی امداد زیادہ تر ان خطوں پر مرکوز کی جا رہی ہے جو براہ راست عطیہ دہندگان کے اثر و رسوخ کے قریب ہیں، یوکرین جنگ جیسے بحران زیادہ وسائل سمیٹ لیتے ہیں، جس سے دور دراز ممالک نظرانداز ہو جاتے ہیں۔
پاکستان میں حالیہ سیلاب محض ایک قدرتی آفت نہیں بلکہ موسمیاتی تبدیلی کی بھیانک قیمت ہے ایسی قیمت جو اکثر وہ ممالک چکاتے ہیں جن کا کاربن کے اخراج میں حصہ نہ ہونے کے برابر ہوتاہے، زرعی شعبے کی تباہی نے نہ صرف معیشت بلکہ کروڑوں افراد کی غذائی سلامتی کو خطرے میں ڈال دیا ہے، بین الاقوامی امداد میں کمی نے فوری امدادی کارروائیوں اور طویل مدتی بحالی و موسمیاتی موافقت کے منصوبوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے، اگر خاطر خواہ عالمی تعاون نہ ملا تو پاکستان کی بحالی نہایت سست رہے گی اورپاکستان کی دیہی آبادی آئندہ موسمی جھٹکوں کے سامنے مزید کمزور ہو جائے گی لہٰذا عالمی برادری کو قلیل مدتی معاشی اور سیاسی حساب کتاب سے بالاتر ہوکر آگے بڑھنا ہوگا، پائیدار اور بڑی سطح کی امداد عالمی استحکام میں سرمایہ کاری ہےاور موسمیاتی بحران کے سامنے ایک اخلاقی ذمہ داری بھی۔
منگل, دسمبر 2, 2025
رجحان ساز
- پارلیمنٹ کے پاس عدلیہ کو اپنے ماتحت رکھنے کا اختیار نہیں! حالیہ آئینی ترامیم پر اقوام متحدہ کا ردعمل
- ایران پر حملے کیلئے 20 سال تیاری کی، بارہ روزہ جنگ میں اسرائیل اور امریکہ دونوں کو شکست دی
- امریکہ سعودی عرب کو ایف 35 کا کمزور ورژن دے گا مارکو روبیو نے نیتن یاہو کو یقین دہانی کردی
- حزب اللہ کا چیف آف اسٹاف علی طباطبائی کے قتل کا بدلہ لینے کا اعلان خطے کی سیکورٹی کو خطرہ لاحق!
- امن منصوبہ یوکرین کیلئے آپش محدود، جنگ روکنے 28 نکاتی پلان پر 3 یورپی ملکوں کی رخنہ اندازی
- عالمی ایٹمی توانائی ایجنسی کی قرارداد بعد تہران قاہرہ مفاہمت کو ختم شدہ تصور کرتا ہے، عباس عراقچی
- فیصل آباد کیمیکل فیکٹری کے مالک و مینیجر سمیت 7 افراد کےخلاف دہشت گردی پھیلانےکا مقدمہ
- ایران میں پانی کا بحران شدت اختیار کرگیا، بدانتظامی نے تہران کے شہریوں کی زندگی مشکل بنادی !

