پاکستان نے نئے مالی سال کے مجوزہ بجٹ میں اپنے دفاعی بجٹ میں 18 فیصد کا اضافہ کیا ہے جب کہ قرض ادائیگی پر 6200 ارب روپے خرچ ہوں گے، وفاقی حکومت کا مالی سال 26ـ2025 کئلئے 17600 ارب روپے حجم کا بجٹ کل منگل 10 مئی کو پیش کیا جائے گا جبکہ قومی اقتصادی سروے آج جاری کیا جائے گا۔ وزارتِ خزانہ نے بجٹ کے اہم خدوخال طے کر لیے ہیں، جن میں ٹیکس وصولی، آمدن، خسارے اور اخراجات سے متعلق تفصیلات شامل ہیں، وفاقی بجٹ میں مجموعی آمدن کا تخمینہ 19 ہزار 400 ارب روپے لگایا گیا ہے جو روایتی طور پر حقیقت کے برخلاف نظر آرہا ہے، حکومت نے ایف بی آر کے ذریعے ٹیکس وصولی کا ہدف 14 ہزار 130 ارب روپے مقرر کیا گیا ہے، 25-2024ء کے بجٹ میں ایف بی آر مقررہ ہدف سے کم ٹیکس وصولیاں کرسکا ہے، وفاقی حکومت نے 24-2025ء کیلئے ایف بی کیلئے ٹیکس وصولیوں کا ہدف 12,334 ارب روپے مقرر کیا تھا تاہم اس میں 1,027 ارب روپے کا شارٹ فال ریکارڈ کیا گیا ہے، مئی 2025ء تک الف بی آر نے صرف 10,213 ارب روپے وصول کیے، اس لحاظ سے یہ کہنا مشکل نہیں ہے کہ آئندہ مالی سال کیلئے ایف بی آر کے ذریعے ٹیکس وصولیوں کا ہدف حقیقت سے مطابقت نہیں رکھتا ہے، ایف بی آر کے ذرائع کا کہنا ہے کہ ٹیکس وصولیوں میں کمی کی وجہ درآمدات میں کمی ہے جوکہ وفاقی حکومت کی سخت پالیسیوں کے باعث بنا، یہاں یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ پاکستان کے پاس زرمبادلہ کی شدید کمی کی وجہ سے وفاقی حکومت مجبور ہوئی ہے کہ وہ درآمدات کی حوصلہ شکنی کرئے تاہم آئی ایم ایف نے سال 25 – 2026ء کے بجٹ میں درآمدات پر ناروا پابندیوں کو ختم کرنے کیلئے وفاقی حکومت کو مجبور کیا ہے کیونکہ درآمدت پر ناروا پابندیوں اور ٹیرف میں غیر معقولانہ اضافے نے باڈرز اسمگلنگ راستے کھول دیئے ہیں، آئی ایم ایف کا واضح اشارہ ایران اور افغانستان کے باڈرز کے ذریعے اسمگلنگ میں اضافہ کی طرف ہے، ایران میں چاہ بہار پورٹ کے فعال ہونے کے بعد دبئی سے اشیاء کی اسمگلنگ ریمدان گوادر باڈر کے ذریعہ بڑھ گئی ہے جبکہ افغانستان کی ٹرانزٹ ٹریڈ کا پچاس فیصد گذشتہ کئی دہائیوں سے دونوں ملکوں کے باڈرز پر تعینات حکام،کسٹمز،باڈر سکیورٹی فورسز اور سکیورٹی ایجنسیوں کی ملی بھگت سے اسمگل ہوکر دوبارہ پاکستان پہنچ جاتا ہے جوکہ پاکستان کی قومی آمدنی کو کم اور اہلکاروں کی ذاتی دولت میں اضافے کا سبب بن رہا جوکہ سماجی مسائل کیساتھ ساتھ منی لانڈنگ اور دہشت گردی میں اضافے کا باعث ہے، وفاقی حکومت نے فوجی مقتدرہ کے تعاون سے کرپٹو کرنسی کیلئے فعالیت دکھائی ہے پاکستان جیسے ملک میں جہاں جمہوری حکومتوں کا مینڈیٹ محدود ہوتا ہے وہاں خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ پاکستان میں کرپٹو کرنسی کے رواج پانے سے منی لانڈنگ میں اضافہ ہوگا، پاکستان جیسے کم وسائل رکھنے والے ملک میں کرپٹو کرنسی کا رواج پانا قومی آمدنی کو متاثر کرئے گا، اس وقت تو سہانا خواب دکھایا جارہا ہے لیکن جلد ہی اس کی پیچیدگیاں واضح ہونا شروع ہوجائیں گی۔
پاکستان کی وفاقی حکومت نے آئندہ مالی سال کے دفاعی بجٹ میں 18 فیصد اضافہ کرنے کی تجویز رکھی ہے جبکہ سال 25-2024ء میں دفاعی بجٹ میں 13 فیصد اضافہ کیا گیا تھا، ہندوستان کی حالیہ جارحیت کی روشنی میں پاکستانی قوم اس اضافے کو نوٹس میں نہیں لائے گی جبکہ فوجیوں کی پنشنز وفاقی حکومت کے ملازمیں کے کھاتے سے ادا ہورہی ہیں، دفاعی بجٹ پر بعض ماہرین کی تنقید کو اس لئے کوئی اہمیت حاصل نہیں ہوسکے گی کیونکہ ہندوستان کی مودی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ آپریشن سندور جاری ہے، پاکستان کا دفاع کے بعد دوسرا بڑا خرچہ قرضوں اور سود کی ادائیگیاں ہیں، مجوزہ بجٹ میں قرضوں کی ادائیگی پر 6 ہزار 200 ارب روپے خرچ ہوں گے، جو بجٹ خسارے کے برابر ہے، بجٹ خسارے کا ہدف بھی 6 ہزار 200 ارب روپے رکھا گیا ہے جوکہ نئے قرضوں کے ذریعہ پورا کیا جائے گا، وفاقی حکومت کے اخراجات میں کمی کے امکانات کو ہمیشہ ملتوی کردیا جاتا ہے، عین بجٹ سے پہلے قومی اسمبلی کے اسپیکر اور سینیٹ کے چیئرمین کی تنخواہوں میں 600 فیصد اضافہ کیا گیا جبکہ ماہرین کی جانب سے وفاقی حکومت کی وزارتوں اور اِن کے ذیلی اداروں کو بند کرنے کے تجویز پر عملدرآمد ہی نہیں ہوتا، پاکستان کے صف اوّل کے ماہر معیشت قیصر بنگالی جو وفاقی اور صوبوں کی حکومتوں کیساتھ کام کرچکے ہیں نے متعدد بار کہا ہے کہ وفاقی اخراجات میں کمی ممکن نہیں ہے جب تک کہ غیر ضروری وزارتیں اور اِن کے ذیلی ادارے ختم نہ کئے جائیں، پاکستان میں حکومتوں اور سکیورٹی مقتدرہ کے سیاسی عزائم کی بناء پر غیر ضروری وزارتوں اور منسلکہ محکموں کو ختم کرنا ممکن نہیں دکھائی دیتا، ٹیکس وصولیوں کی مد میں زرعی شعبے کو شامل کرلیا جائے تو نہ صرف تنخواہ دار افراد پر ٹیکسوں کا بوجھ کم ہوگا بلکہ ملکی آمدنی میں اضافہ ہوگا، 80ء کی دہائی سے ہر بجٹ سے قبل اور بعد میں زرعی ٹیکس کا غلغلہ بلند ہوتا ہے اور پھر سیاسی اور سکیورٹی اشرفیہ اپنی بھرپور صلاحیت کیساتھ زرعی ٹیکس کے نفاذ کے معاملہ کو سختی سے کچل دیتی ہے، اس دوران دو مرتبہ فوج کی براہ راست حکومتیں بھی رہیں مگر زراعت سے وابستہ بڑے زمیندار جو قانون ساز اداروں میں معقول تعداد رکھتے زرعی ٹیکس لگانے کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جاتے ہیں۔
پاکستان کی رواں مالی سال 25-2024 میں معاشی ترقی کی شرح 2.68 فیصد رہنے کا امکان ہے جبکہ زرعی ترقی کی شرح نمو 0.56 فیصد رہی جو گذشتہ سال کی نسبت کم وبیش 5 فیصد کم رہی ہے، جسکی وجہ کپاس اور چاول کی پیداوار میں نمایاں کمی ہے جبکہ گندم کی پیداوار 31.8 ملین ٹن سے کم ہو کر 28.9 ملین ٹن رہی، اسی طرح گنے کی پیداوار میں 3.8 فیصد کمی ہوئی، زرعی پیداوار میں کمی کی متعدد وجوہات میں پانی کی کمی ایک اہم مسئلہ ہے جبکہ ہندوستان نے اپریل میں سمدھ طاس معاہدہ معطل کرکے پاکستان کا پانی روک دیا ہے حالانکہ ہندوستان کیساتھ حالیہ تصادم میں پاکستان کی فتح کا ڈنکا بجایا جارہا ہے اور ترقیاں الگ دی جارہی ہیں، امکان ہے کہ 25-2026ء کے بجٹ میں سرکاری ملازمین کو راحت ملے گی ان کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافے کی تجویز دی جارہی ہے جبکہ ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن میں 5 سے ساڑھے 7 فیصد تک اضافے کی تجویز زیر غور ہے، دفاعی بجٹ میں 18 فیصد اضافے کے مقابلے میں تعلیم اور صحت کے شعبوں کیلئے نسبتاً کم فنڈز مختص کیے جارہے ہیں، اِن دونوں شعبوں پر مجموعی طور پر خرچ کی جانے والی رقم دفاع پر مختص رقم سے تقریباً 20 گنا زیادہ ہے، تعلیم پر مجموعی طور پر جی ڈی پی 1.91 فیصد خرچ ہوتا ہے جو پسماندہ قوموں کے سلانہ اخراجات سے بھی کم ہے، آئندہ مالی سال کے بجٹ میں وفاق نے تعلیم کیلئے محض 13 ارب 58 کروڑ روپے اور صحت کیلئے 14 ارب 30 کروڑ روپے رکھنے کی تجویز ہے، حکومتوں کا اِن دو شعبوں کیساتھ رویہ پاکستان کو قوموں کی صفوں میں نچلی سطح پر لے جارہا ہے، علاوہ ازیں ڈیجیٹل معیشت اور آئی ٹی سیکٹر کیلئے 16 ارب 22 کروڑ روپے مختص کیے جانے کا امکان ہے، جسے معیشت کے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش قرار دیا جا رہا ہے۔
بجٹ اجلاس کا سب سے اہم دن 26 جون ہوگا، جس دن فنانس بل 25-2026ء کی منظوری لی جائے گی، اس سے قبل 23 جون کو مختص اخراجات پر بحث جبکہ 24 اور 25 جون کو مطالبات زر، گرانٹس اور کٹوتی کی تحاریک پر بحث اور ووٹنگ ہوگی، 27 جون کو سپلیمنٹری گرانٹس سمیت دیگر امور پر ووٹنگ مکمل کی جائے گی، بجٹ پر بحث کیلئے قومی اسمبلی کے اسپیکر نے مختصر مدت رکھی ہے، جس میں بھی ارکان پارلیمنٹ کی دلچسپی بھی کم دکھائی دیتی ہے۔
With every new follow-up
Subscribe to our free e-newsletter
پیر, جون 9, 2025
رجحان ساز
- پاکستان کے بجٹ میں تعلیم و صحت کا شعبہ پھر نظرانداز زرعی ٹیکس نہ لگا تو بوجھ تنخواہ دار اُٹھائے گا !
- اسرائیلی ایٹمی پروگرام کی خفیہ دستاویزات کا حصّول، ایران کا انٹیلی جنس آپریشن کامیابی سے ہمکنار !
- ایران نے اسرائیلی انٹیلی جنس نیٹ ورک ناکام بنادیا حساس و ایٹمی تنصیبات کا خفیہ ریکارڈ حاصل کرلیا
- بلوچستان میں فائرنگ کے دو واقعات میں چھ افراد جاں بحق ہوگئے سرکاری دعویٰ غلط درست نہیں
- ایران کے پاس جوہری ہتھیار نہیں لیکن اس کے پاس ہتھیار بنانے کا ضروری مواد موجود ہے، رافیل
- اسرائیل غذائی امداد کی لوٹ میں ملوث داعش کو حماس خلاف کھڑا کرنے کیلئے اسلحہ فراہم کررہا ہے
- روسی خارجہ پالیسی کی غیر مشروط حمایت جاری رکھی جائے گی، پانگ یانگ لیڈر کی ماسکو کو یقین دہانی
- غزہ کے انسانی المیے پر اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھنے والوں کو قیام کرنا چاہیے، امام سید علی خامنہ ای کا پیغام حج
پاکستان کے بجٹ میں تعلیم و صحت کا شعبہ پھر نظرانداز زرعی ٹیکس نہ لگا تو بوجھ تنخواہ دار اُٹھائے گا !
حکومتوں کا تعلیم اور صحت کے شعبوں کیساتھ رویہ پاکستان کو قوموں کی صفوں میں نچلی سطح پر لے جارہا ہے اِن دونوں شعبوں کیلئے بجٹ میں مختص رقم دفاعی اخراجات سے 20 گنا کم ہے