شام میں ہیئت تحریر الشام نے سابق شامی صدر بشار الاسد کے والد اور سابق صدر حافظ الاسد کے مزار اور قبر کو نذرِ آتش کردیا ہے، برطانوی نشریاتی ادارے برطانوی میڈیا رپورٹ کے مطابق تصدیق شدہ ویڈیوز میں مسلح افراد کو شام کے شمال مغربی قصبے قرداحہ میں حافظ الاسد کے جلتے ہوئے مقبرے کے گرد چہل قدمی کرتے ہوئے دیکھا گیا، خیال رہے کہ الجولانی کا دہشت گرد گروہ کی جانب سے دارالحکومت دمشق پر قبضے کے بعد شام کے صدر بشار الاسد 24 سالہ اقتدار میں رہنے کے بعد مستعفی ہوگئے اور اپنے اہلخانہ سمیت روس پہنچ گئے تھے، دریں اثنا ہئیت تحریر الشام (ایچ ٹی ایس) کی قیادت میں مسلح باغیوں نے اپنے سابق صدر حافظ الاسد اور ان کے بیٹے بشار الاسد کے مجسمے اور پوسٹرز کو اتار دیا تھا، جس کے بعد جمعرات کو ایسی کئی ویڈیوز جاری کی گئیں جس میں مرحوم صدر حافظ الاسد کے مقبرے کو کیمیکل ڈال کر آگ لگادی ہے، اس انسانیت سوز واقعے کی خبر کو مغربی میڈیا مزے لے لےکر شائع کررہا ہے جو بزعم خود اپنے کو متمدن قرار دیتے ہیں۔
ہیئت تحریر الشام بنیادی طور پر سلفی نظریات اور عقائد کے حامل دہشت گرد گروہ ہے جبکہ اسلام میں قبروں کی بے حرمتی کی ہرگز گنجائش نہیں ہے، ہیئت تحریر الشام سربراہ سفیان الجولانی مسلمہ دہشت گرد تھے, جن پر امریکہ نے زندہ یا مردہ لانے پر انعام بھی رکھا تھا مگر بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے کے مصدق امریکہ اور اس کے اتحادی اسرائیل نے اسی دہشت گرد کو مسلح گروہوں کا لیڈر بناکر دمشق پر قبضہ کرایا اور اسے مغرب نجات دہندہ قرار دے رہا ہے، دوسری جانب ہئیت تحریر الشام کے سربراہ ابو محمد الجولانی جاری بیان میں سابق حکومت کی سکیورٹی فورسز کو تحلیل کرنے کا اعلان کیا ہے، جبکہ اسرائیل دمشق کے مضافات میں داخل ہوچکی ہے، شام میں بشار الاسد حکومت کے خاتمے کے بعد لوگ بڑی تعداد میں جیلوں کا رخ کر رہے ہیں جہاں زیرِ حراست ہزاروں افراد کو رکھا گیا تھا، شام کی ایک جیل سے رہائی پانے والی قیدی نے کہا تھا کہ جیل میں میرا نام نمبر 1100 تھا، انہیں 2019 میں حما میں ایک چیک پوسٹ سے لے جایا گیا تھا اور ان پر دہشت گردی کا الزام لگایا گیا تھا، انہیں حلب لے جایا گیا جہاں انہوں نے مختلف جیلوں میں وقت گزارا ہے، جیل سے رہائی کے بعد ہالا کا کہنا تھا کہ ہمیں یقین نہیں آرہا تھا کہ یہ حقیقی ہے اور ہم روشنی دیکھیں گے، ہالا رہائی پانے والے ایک لاکھ 36 ہزار 614 قیدیوں میں سے ایک ہیں جو مختلف جرائم میں سزا کاٹ رہے تھے