تحریر: محمد رضا سید
ایرانی نائب وزیر خارجہ عباس عراقچی کا کہنا ہے کہ تہران اس بات کی یقین دہانی کرانے کیلئے تیار ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پُرامن مقاصد کیلئے ہے، دوسری جانب امریکی انٹیلی جنس کا کہنا ہے کہ اگر ایران جوہری ہتھیار بنانے کا فیصلہ کرتا ہے تو وہ دو ہفتوں سے بھی کم عرصے میں ہتھیاروں کے درجے کا یورینیم تیار کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، اسی بنا پر مسقط کے توسط سے تہران کو دی گئی امریکی تحریری تجویز میں مبینہ طور پرمطالبہ کیا گیا ہے کہ ایران یورینیم افزودگی کا عمل بند کرے، تاہم ایرانی سفارت کار اسے اپنے ملک کی خودمختاری کی سرخ لکیر قرار دے رہے ہیں۔
پاکستان سمیت متعدد عرب ممالک نے ایران کے یورینیم افزودگی کے حق کو تسلیم کیا ہے، پاکستان کے وزیرِ اعظم شہباز شریف اور آرمی چیف نے اپنے حالیہ دورہ تہران کے دوران ایران کے رہبرِ انقلاب اسلامی سے ملاقات میں پُرامن مقاصد کیلئے یورینیم افزودگی کو تہران کا بنیادی حق قرار دیا،سعودی وزیرِ دفاع شہزادہ خالد بن سلمان کے دورۂ تہران اور آیت اللہ خامنہ ای سے ملاقات میں سعودی عرب نے یقین دہانی کرائی کہ اگر ایران اور امریکہ کے درمیان کوئی معاہدہ ہوتا ہے تو وہ اس پر امریکہ کی طرف سے مکمل عملدرآمد کی ضمانت لے گا، سعودی عرب یہ چاہتا ہے کہ ایران اور امریکہ کے درمیان مذاکرات بے نتیجہ نہ رہیں کیونکہ اس سے خطے میں مزید کشیدگی پیدا ہو سکتی ہے۔
واشنگٹن میں موجود دفاعی ذرائع کے مطابق یمن اور امریکہ کے درمیان سیزفائر کے غیرتحریری معاہدے کیلئے سعودی عرب نے تہران کی مدد حاصل کی تھی، بحیرہ احمر میں یمن کے خلاف امریکی حملوں کے دوران شہری ہلاکتوں کے ساتھ ساتھ تجارتی بندرگاہ حدیدہ اور تیل کی تنصیبات کو بھی نقصان پہنچا مگر یمن نے امریکہ کے کم از کم 15 ایم کیو-9 ڈرونز مار گرائے، جن میں سے ہر ایک کی قیمت تقریباً 30 ملین ڈالر تھی، ان ڈرونز کے نقصان کا مجموعی تخمینہ 200 ملین ڈالر سے زائد لگایا گیا ہے جبکہ امریکی فوج کو براہ راست و بالواسطہ طور پر پہنچنے والے نقصانات کا اندازہ 596 ملین ڈالر سے بھی زیادہ ہے، بحری بیڑوں کی نقل و حرکت اور دیگر عسکری اخراجات کا مجموعی تخمینہ 3.7 ارب ڈالر لگایا گیا ہے، یمن نے امریکی بیڑے اور ڈرونز کے خلاف ایرانی ساختہ 358 میزائلوں سمیت دیگر دفاعی نظام استعمال کیے، اس کا واضح مطلب یہی ہے کہ امریکہ نے ایران سے بلواسطہ جنگ کرکے اندازہ لگالیا ہے کہ جنگ امریکہ کیلئے نقصان کا سودا ہے، اس صورتحال کو مد نظر رکھا جائے تو مذاکرات کے نتیجہ خیر ہونے کی اُمید نمایاں ہے۔
ایران اور امریکہ کے درمیان ایٹمی مذاکرات کے پانچ دور مسقط کے ذریعے مکمل ہو چکے ہیں، امریکہ نے اپنی تحریری شرائط مسقط کے وزیر خارجہ کے توسط سے تہران کو پہنچائی ہیں، اگرچہ ان شرائط کی تفصیلات تاحال مصدقہ طور پر سامنے نہیں آئیں تاہم رائٹرز نے اپنی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ امریکہ نے ایران سے یورینیم افزودگی کو صفر سطح پر لانے کا مطالبہ کیا ہے، ایرانی حکام کے بیانات سے بھی ایسے اشارے ملے ہیں کہ یہ شرط امریکہ کی طرف سے پیش کی گئی ہے، جب اِن کیمرہ مذاکرات ہوتے ہیں اور دونوں فریق میڈیا سے براہِ راست بات نہیں کرتےتو قیاس آرائیاں اور غیر مصدقہ اطلاعات افواہوں کی شکل اختیار کر لیتی ہیں، جدید میڈیا دور میں سنجیدہ رپورٹنگ کے بجائے سنسنی خیزی کو فروغ دیا جاتا ہے، مذاکرات میں شریک افراد بھی بسا اوقات نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر میڈیا کو خبریں فراہم کرتے ہیں تاکہ مذاکرات کا توازن اپنے حق میں رکھا جاسکےتاہم اب تک کے پانچ مذاکراتی ادوار میں دونوں جانب سے مثبت اشارے سامنے آئے ہیں، امریکہ کی جانب سے یورینیم افزودگی کو مکمل طور پر بند کرنے کی شرط غیر منطقی اور بعید از قیاس نظرآرہی ہے۔
گذشتہ روز پیر کو ایرانی وزیر خارجہ نے مصر کا دورہ کیا، ایران اور مصر کے تعلقات ماضی میں اتار چڑھاؤ کا شکار رہے ہیں خصوصاً مصر میں اخوان المسلمون کی حکومت کے خاتمے اور فوجی حکومت کے قیام کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات میں شدید سرد مہری پیدا ہوئی تھی تاہم عباس عراقچی کے حالیہ دورۂ قاہرہ کے دوران ان کا پُرتپاک استقبال کیا گیا، انہوں نے مصری صدر عبدالفتاح السیسی، وزیر خارجہ بدر عبدالعاطی اور بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل رافائل گروسی سے اہم ملاقاتیں کیں، عراقچی نے ان ملاقاتوں میں واضح کیا کہ ایران جوہری ہتھیاروں کی تیاری کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا اور نہ ہی وہ ایسے ہتھیاروں کی تیاری کو درست سمجھتا ہے، تاہم اس نے یورینیم افزودگی کے فطری حق کو ترک کرنے کو سختی سے مسترد کیا، پیر کے روز ہونے والی اعلیٰ سطحی بات چیت میں عالمی ایٹمی ایجنسی کی حالیہ رپورٹ کے تناظر میں ہوئی، جس میں کہا گیا تھا کہ تہران انتہائی افزودہ یورینیم کی پیداوار میں اضافہ کر رہا ہے، ڈائریکٹر جنرل گروسی اور صدر السیسی نے مصر میں جوہری ٹیکنالوجی کے پُرامن استعمال، خاص طور پر روس کے تعاون سے بننے والے دابا پاور پلانٹ پر بھی تبادلہ خیال کیا، خیال کیا جا رہا ہے کہ ایران، سعودی عرب اور مصر کے ساتھ پُرامن جوہری پروگرام میں تعاون کو فروغ دینا چاہتا ہےجبکہ اسرائیل تہران کے ان اقدامات کو اپنے لئے خطرہ تصور کرتا ہے،مصری صدر اور وزیر خارجہ سے ملاقاتوں کے بعد پریس کانفرنس میں وزیر خارجہ عبدالعاطی نے کہا کہ مصر مشرقِ وسطیٰ کو جوہری اور بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں سے پاک خطہ بنانے کیلئے پُرعزم ہے، یہ بیان اس امر کی غمازی کرتا ہے کہ ایران، اسرائیل کے خفیہ ایٹمی پروگرام کو عالمی سطح پر بے نقاب کرنا چاہتا ہے، تہران کی سفارتی کوششیں کم از کم ریاض اور قاہرہ کی سطح پرمؤثر اور نتیجہ خیز نظر آتی ہیں۔
جمعرات, جون 5, 2025
رجحان ساز
- یمن اسرائیل کے اسٹریٹجک اہداف کے خلاف اپنے حملوں کو مزید بڑھانے کیلئے پوری طرح تیار ہے
- ایک لاکھ 35 ہزار پاکستانیوں نے یورپ اور امریکا میں سیاسی پناہ کی درخواستیں دی ہیں، سینیٹ کمیٹی
- غزہ میں انسانی بحران کے تناظر میں جرمنی اسرائیل سے فوجی اور تجارتی تعلقات پر نظرثانی کررہا ہے
- غزہ میں عام شہریوں پر اسرائیل کے زمینی حملے جنگی جرم ہے، اقوام متحدہ نے تل ابیب کو خبردار کردیا
- پاکستان کے دفاعی بجٹ اور تنخواہ دار طبقے کو ٹیکس ریلیف دینے کا مطالبہ آئی ایم ایف نے منظور کرلیا
- ایران کے یورینیم افزودگی کے حق کو تسلیم کرکے ہی واشنگٹن جوہری معاہدے کو ممکن بنا سکتا ہے !
- پاکستان کو گلگت بلتستان میں ٹیکس لگانے کا حق نہیں متنازع خطہ ہے وفاق صرف انتظام سنبھالتا ہے
- اقوام متحدہ پاکستان اور ہندوستان درمیان تنازعات میں کردار ادا کرے، خلیج تعاون کونسل کا مطالبہ