پاکستان کی سپریم کورٹ نے حکومت کی جانب سے ملٹری ٹرائل کے خلاف دائر انٹرا کورٹ اپیلوں کا تحریری فیصلہ جاری کرتے ہوئے حکومت کو فوجی عدالتوں سے سزا پانے والوں کو اپیل کا حق دینے کیلئے قانون سازی کا حکم دیا ہے، خیال رہے کہ متنازعہ 26 آئینی ترمیم کے بعد سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے رواں سال سات مئی کو حکومت کی انٹرا کورٹ اپیلیں منظور کرتے ہوئے شہریوں کے ملٹری ٹرائل کے خلاف اپنے ہی پانچ سینئر ججز کا فیصلہ کالعدم قرار دیا تھا اور فوجی عدالتوں میں مقدمے چلانے اجازت دے دی تھی اس فیصلے نے پاکستان کے شہری حقوق پر سوال ہی نہیں کھڑا کیا تھا بلکہ نظام حکومت کیلئے جمہور کی نمائندگی کو بے اثر کردیا اور فوجی آمریت کیلئے راستہ ہموار کیا اور نظام انصاف میں فوجی مداخلت کو تسلیم کیا، قبل ازیں 23 اکتوبر 2023 کو جسٹس اعجازالاحسن کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے نو مئی کیسز میں گرفتار شہریوں کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل کالعدم قرار دے دیا تھا جس کے خلاف شہباز زرداری حکومت نے انٹرا کورٹ اپیلیں دائر کی تھیں، پیر کے روز جاری ہونے والے انٹرا کورٹ اپیلوں کا 68 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جسٹس امین الدین خان نے تحریر کیا ہے، جنھیں تجزیہ نگار جسٹس منیر سے تشبیہ دیتے ہیں جنھوں نے ملک میں فوجی حکومتوں کا راستہ کھولا اس ائینی بینچ میں شامل جسٹس محمد علی مظہر نے 47 صفحات کا اضافی نوٹ لکھا ہے۔ جسٹس امین، جسٹس حسن رضوی، جسٹس مسرت ہلالی جسٹس شاہد بلال نے اضافی نوٹ سے اتفاق کیا ہے جبکہ جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس نعیم افغان نے اختلافی نوٹ تحریر کیا ہے۔
عدالت نے فوجی عدالتوں سے سزا پانے والے افراد کو اپیل کا حق دینے کیلئے حکومت کو 45 دن میں قانون سازی کا حکم دیا ہے، فیصلے میں کہا گیا ہے کہ آرمی ایکٹ میں بنیادی ضابطہ موجود تو ہے مگر عام شہریوں کیلئے مناسب اپیل کے فورم کا فقدان ہے، عدالت کا کہنا ہے کہ فوجی عدالتوں سے سزا یافتہ شہریوں کیلئے ہائی کورٹس میں آزادانہ اپیل کیلئے قانون سازی کو پورا کیا جانا چاہیئے، فیصلے میں کہا گیا ہے کہ آرمی ایکٹ کے تحت ٹرائلز آئینی طور پر بنیادی حقوق کے نظام سے باہر رکھے گئے ہیں تاہم ان میں بھی آرٹیکل 10 اے میں وضع معیار کی پاسداری ہونی چاہیئے، عدالت کا کہنا تھا کہ کیس کے دوران اٹارنی جنرل نے کئی مرتبہ حقِ اپیل پر حکومتی ہدایات کیلئے وقت لیا اور پانچ مئی کو آخری سماعت پر بھی اٹارنی جنرل نے ایسا ہی کہا، فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اٹارنی جنرل نے کہا تھا عدالت ہدایت دے تو پارلیمنٹ میں قانون سازی ہو سکتی ہے، فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ آزاد حقِ اپیل کی عدم موجودگی میں آرمی ایکٹ میں موجود ضابطہ کار عام شہریوں کیلئے آئینی طور پر مکمل نہیں اور اس کمی کو پورا کرنے کیلئے قانون سازی کے ذریعے سے مداخلت کرنے کی ضرورت ہے، عدالت کا کہنا ہے کہ حکومت اور پارلیمان حقِ اپیل کیلئے 45 دن میں قانون سازی کریں۔
منگل, اکتوبر 14, 2025
رجحان ساز
- ہائبرڈ نظام کا نتیجہ پنجاب میں جان لیوا پولیس مقابلوں میں تشویشناک اضافہ ہوا، انسانی حقوق کمیشن
- برادر کُشی ہرگز قبول نہیں پاکستانی مقتدرہ کو سمجھنا ہوگا افغان عوام اور طالبان الگ الگ حقیقتیں ہیں
- پاکستانی فوج میں بعض افراد افغانستان کی سکیورٹی اور ترقی سے خوش نہیں، ذبیح اللہ مجاہد کی ہرزہ سرائی
- غزہ پر جارحیت کے دوسال سائبر حملوں سے 40 فیصد اسرائیلی انٹیلی جنس نظام متاثر یا سست پڑ گئے
- اسرائیل اور پاکستان کی سفارش کے باوجود صدر ٹرمپ نوبل امن پرائز کیوں نہ مل سکا؟ 😎😎
- امریکی صدر کے 20 نکات ردی دان کی نذر ہوگئے، حماس کے 8 نکات جنگ بندی کی بنیاد ہوں گے
- ایس آئی ایف سی کو آئین کیخلاف ادارہ قرار دینے پر ایمل ولی خان نے وزیر اعظم سے معافی مانگ لی!
- اورکزئی میں دہشت گردوں سے جھڑپ، ایک لیفٹیننٹ کرنل اور میجر سمیت 11 فوجی جوان شہید