پاکستان کی وفاقی حکومت نے جبری طور پر لاپتہ ہونے والے افراد کے خاندانوں کی مالی معاونت کیلئے رقم کی فراہمی کا عمل شروع کردیا ہے، جمعے کے روز اسلام آباد ہائی کورٹ میں لاپتہ شخص محمد عبداللہ عمر کی بازیابی سے متعلق درخواست کی سماعت ہوئی، اس دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل اور وزارت دفاع کے نمائندے کی جانب سے عدالت کو بتایا گیا کہ وفاقی حکومت نے متاثرہ فیملی کو 50 لاکھ روپے کی رقم منتقل کردی ہے، محمد عبداللہ عمر فوج سے ریٹائرڈ ہونے والے کرنل خالد عباسی کے بیٹے ہیں، اہل خانہ کا دعویٰ ہے کہ انھیں 2015 میں اسلام آباد سے جبری طور پر لاپتہ کیا گیا تھا، اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس محسن اختر کیانی نے اس مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ متاثرہ فیملی کے دُکھوں کا مداوا پیسوں سے نہیں کیا جاسکتا، انھوں نے کہا کہ پیسہ جان کا نعم البدل نہیں اور یہ مقدمہ ابھی بھی وہیں کھڑا ہے یعنی بندے کو بازیاب کیا جائے، جسٹس محسن اختر کیانی نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو حکم دیا ہے کہ فوج کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے ڈپٹی ڈی جی یا سیکٹر کمانڈر عدالت کو جبری طور پر لاپتہ افراد سے متعلق ان کمیرہ بریفنگ دیں، عدالت نے یہ بھی حکم دیا کہ لا افسر آئندہ سماعت سے قبل عدالت کو اس افسر کے بارے میں آگاہ کریں گے اور بتایا جائے گا کہ خفیہ ادارے کا کون سا افسر جبری طور پر لاپتہ افراد سے متعلق بریف کرے گا، واضح رہے کہ وفاقی کابینہ نے گذشتہ برس اگست میں ایک پالیسی کی منظوری دی تھی جس کے تحت ایسے افراد جوکہ گذشتہ پانچ سال سے لاپتہ ہیں اور مسنگ پرسن سے متعلق کمیشن نے بھی تسلیم کیا ہے کہ ان افراد کو جبری طور پر لاپتہ کیا گیا ہے، ان کے ورثا کی مالی معاونت کی جائے گی، جبری طور پر لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے بنائے گئے کمیشن کی جانب سے پہلے یہ بیان سامنے آیا تھا کہ ایسے افراد کی تعداد ایک ہزار کے قریب ہے جنھیں جبری طور پر لاپتہ کیا گیا، کمیشن کے مطابق یہ افراد گذشتہ پانچ سال سے بازیاب نہیں ہوئے، تاہم اب اسلام آباد ہائی کورٹ کو یہ بتایا گیا ہے کہ ایسے افراد کی تعداد ساڑھے پانچ سو سے زیادہ ہے۔
عدالت نے اس درخواست کی سماعت چھ اکتوبر تک ملتوی کی ہے، اس سے قبل وفاق کے نمائندوں کی جانب سے متاثرہ شخص کی فیملی کو رقم کی منتقلی سے متعلق آگاہ کیا گیا، اس کے بعد عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ریاست کسی کی مالی معاونت کرکے کسی پر احسان نہیں کررہی بلکہ ریاست کی اولین ترجیع تو یہ ہونی چاہیئے کہ جن افراد کو جبری طور پر لاپتہ کیا گیا ہے انھیں بازیاب کروایا جائے، انھوں نے کہا کہ جبری گمشدگی انتہائی سنگین معاملہ ہے اور اس حوالے سے عدالت کو بریف کیا جائے، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ انٹیلی جنس اداروں کے فیلڈ افسر عدالتوں میں پیش نہیں ہوتے جس پر جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جبری طور پر لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے بنائے گئے کمیشن کے سامنے تو یہ افسران پیش ہوتے رہے ہیں لیکن اب عدالت بُلاتی ہے تو وہ ناراض ہو جاتے ہیں، جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ پتہ نہیں کیوں ریٹائرڈ جج کے پاس تو وہ (خفیہ اداروں کے اہلکار) پیش ہو جاتے ہیں اور یہاں عدالت میں پیش نہیں ہوتے، کمرۂ عدالت میں موجود وزارت دفاع کے نمائندے نے عدالت سے استدعا کی کہ عدالت کسی افسر کا نام نہ لکھے جس پر جسٹس محسن اختر کیانی نے انھیں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میں کسی افسر کا نام نہیں لکھا رہا، صرف عہدہ لکھ رہا ہوں، کمرۂ عدالت میں موجود وزارت دفاع کے نمائندے نے عدالت سے استدعا کی کہ عدالت کسی افسر کا نام نہ لکھے جس پر جسٹس محسن اختر کیانی نے انھیں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میں کسی افسر کا نام نہیں لکھا رہا، صرف عہدہ لکھ رہا ہوں، انھوں نے کہا کہ دس سال پہلے دہشت گردی کا منظر نامہ کچھ اور تھا، آج کچھ اور ہے، جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ کسی نے تو عدالت کو سمجھانا ہے کہ ہو کیا رہا ہے، آج تک کوئی عدالت کو نہیں سمجھا سکا۔
انھوں نے کہا کہ بے شک خفیہ ادارے کے پانچ افسر آجائیں ہوسکتا ہے کہ عدالت کو ایک افسر کی بات سمجھ نہ آئے، انھوں نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ چھ اکتوبر کو بریفننگ ان کیمرہ ہوگی، آپ نے بتانا ہے کہ کون سا افسر پیش ہوگا، انھوں نے کہا کہ آپ سب قابل احترام ہیں، جو بات ہوگی عدالت میں ہوگی، جسٹس محسن اختر کیانی نے وزارت دفاع کے نمائندے کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ یقین کریں میں کسی کو کھاوں گا نہیں انھوں نے کہا کہ مذکورہ شخص کی بازیابی سے متعلق سات سال سے ججمنٹ دی ہوئی ہے لیکن اس پر عملدرآمد نہیں ہو رہا، انھوں نے کہا کہ جبری گمشدگیوں میں ملوث افراد کے خلاف کریمینل کارروائی کی جانب معاملات جائیں گے، انھوں نے کہا کہ یہ تو پارلیمنٹ کا کام ہے جنھوں نے آنکھیں بند کی ہوئی ہیں، جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ سوال اب بھی وہیں کھڑا ہے، لاپتہ شہری کہاں ہے کب پیش کریں گے، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ کہ ادارے کوشش کررہے ہیں، پوری جہدوجہد کر رہے ہیں، جس پر عدالت نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ مسنگ پرسن کی درخواست کو دس سال ہوگئے ہیں، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت سے استدعا کی کہ خفیہ ادارے کے سینیئر افسر کو نہ بلائیں، جسٹس محسن اختر کیانی کا کہنا تھا کہ افسران آکر بس عدالت کو یہ بتا دیں کہ بندہ مارا گیا، ملک چھوڑ گیا یا چھپ کر بیٹھا ہوا ہے، عدالت نے وزارت دفاع کے نمائندے کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ جس مرضی افسر کو بھیج دیں، صرف آ کر سمجھا دیں کہ مسنگ پرسن کہاں ہے، جسٹس محسن اختر کیانی کا کہنا تھا کہ خفیہ ادارے کے افسر ریکارڈ کے ساتھ آجائیں، جیسے مرضی آجائیں اور اس ضمن میں عدالت اپنے آرڈر میں کسی کا نام نہیں لکھ رہی، عدالت نے اس درخواست کی سماعت چھ اکتوبر تک ملتوی کی ہے۔
منگل, اکتوبر 14, 2025
رجحان ساز
- ہائبرڈ نظام کا نتیجہ پنجاب میں جان لیوا پولیس مقابلوں میں تشویشناک اضافہ ہوا، انسانی حقوق کمیشن
- برادر کُشی ہرگز قبول نہیں پاکستانی مقتدرہ کو سمجھنا ہوگا افغان عوام اور طالبان الگ الگ حقیقتیں ہیں
- پاکستانی فوج میں بعض افراد افغانستان کی سکیورٹی اور ترقی سے خوش نہیں، ذبیح اللہ مجاہد کی ہرزہ سرائی
- غزہ پر جارحیت کے دوسال سائبر حملوں سے 40 فیصد اسرائیلی انٹیلی جنس نظام متاثر یا سست پڑ گئے
- اسرائیل اور پاکستان کی سفارش کے باوجود صدر ٹرمپ نوبل امن پرائز کیوں نہ مل سکا؟ 😎😎
- امریکی صدر کے 20 نکات ردی دان کی نذر ہوگئے، حماس کے 8 نکات جنگ بندی کی بنیاد ہوں گے
- ایس آئی ایف سی کو آئین کیخلاف ادارہ قرار دینے پر ایمل ولی خان نے وزیر اعظم سے معافی مانگ لی!
- اورکزئی میں دہشت گردوں سے جھڑپ، ایک لیفٹیننٹ کرنل اور میجر سمیت 11 فوجی جوان شہید