پاکستان کے وفاقی وزیر علیم خان کی نجی سوسائٹی پارک ویو طویل عرصہ تنازع کا شکار رہی جس کو لیکر علیم خان نے تحریک انصاف سے بغاوت کرکے عمران خان کی حکومت گرانے میں اہم کردار ادا کیا، عمران خان نے دریائے راوی پر کسی بھی قسم کی تعمیرات کی مخالفت کی تھی لیکن نوازشریف زرداری حکومت نے علیم خان سے کیا ہوا وعدہ پورا کیا اور انہیں دریائے راوی کے راستے میں پارک ویو سوسائٹی قائم کرنے کی اجازت دے دی، پارک ویو سوسائٹی کے اُوورسیز، پلاٹینیم، ڈائمنڈ، اور کرسٹل بلاکس سیلابی پانی میں ڈوب چکے ہیں، خود ساختہ حفاظتی بند ٹوٹ گیا جس کی وجہ سے یہ پانی سوسائٹی کے اندر داخل ہوگیا، جس سے کم و بیش تقریباً دوہزار رہائشی متاثر ہوئے ہیں یہ تعداد کم نہیں ہے، جس نے رہائشیوں کو گھر چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور کر دیا، یہ لوگ اپنے مستقبل سے بے خبر نوحہ کناں ہیں، ہر ایک کی زبان پر شکایت ہے اور موجودہ نظام کو زبردستی مسلط کرنے والوں کو دیکھ رہے ہیں کہ انھوں نے علیم خان جیسے لوگوں کو قدرتی عزائم کے خلاف جانے کے قابل بنایا، دولت اور طاقت کے کھیل نے پاکستان کو تباہی کی دہلیز پر لاکھڑا کیا ہے اور اُن آوازوں کو دبایا جارہا ہے جو ملک کے مستقبل کیلئے فکرمند ہیں، مقتدرہ نے میڈیا کو فتح کیاا تو عوام کی رغبت یوٹیوب سے جڑ گئی جس پر پاکستان کی فوجی مقتدرہ کا زیادہ زور نہیں چلتا حالانکہ زور چلانے کی کوشش کی گئی تھی مگر بین الاقوامی دباؤ نے مقتدرہ کو مجبور کردیا کہ وہ اِن مذموم کوششوں سے باز آجائیں، گھٹن کے ماحول میں دولت اور طاقت کے حریص کم ظرف لوگوں نے عوام کی زندگیاں اجیرن بنادی ہیں، پاکستان کی سیاسی تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ 80 فیصد سے زیادہ لوگ عمران خان سے اُمیدیں وابستہ کربیٹھے ہیں جنھیں چند لوگوں کی خوشی کیلئے قید تنہائی میں انتہائی خراب حالات میں رکھا گیا ہے، عمران خان بار بار ایک کرنل کا ذکر کرتے ہیں جو درحقیقت اڈیالہ جیل کا مختار ہے، سیلاب سے متاثرہ عوام کی واضح اکثریت کا خیال ہے کہ جس صورتحال سے پاکستانی قوم دوچار ہے اُس سے عمران خان جیسا خدا ترس انسان ہی نجات دلاسکتا ہے، لاہور کی پارک ویو سوسائٹی میں انتظامیہ کی جانب سے زیر آب آنے والے بلاکس میں سے پانی نکالنے کا عمل جاری ہے لیکن اب بھی کئی بلاکس میں کئی کئی فٹ پانی کھڑا ہے، ماہر تعمیرات کہتے ہیں کہ کسی بھی جگہ پر رہائشی اسکیم یا گھر بناتے وقت اُس علاقے کی زمینی ساخت کو اہمیت دی جاتی ہے لیکن بدقسمتی سے جو سوسائٹیز زیر آب آئی ہیں وہ بنی ہی دریا کے راستے میں ہیں، ماہر تعمیرات انجینئر دیوان صفوان کا کہنا تھا کہ دریا کے اطراف بننے والی رہائشی سوسائٹیز کی زمین ریتلی ہوتی ہے۔ رہائشی سکیم بناتے وقت پانی کے بہاؤ کا خاص خیال رکھا جاتا ہے کہ وہ سوسائٹی سے دُور رہے لیکن یہاں تو دریا کے راستے میں ہی سوسائٹیز بنائی گئیں، اُن کے بقول اگر تین سے چار فٹ پانی کئی روز تک کھڑا رہے گا تو وہ گھر کی بنیاد کو ہلائے گا اور گھر کا سٹرکچر اپنی جگہ چھوڑ دے گا اور دیواروں میں دراڑیں پڑنا شروع ہو جائیں گی، وہ کہتے ہیں کہ اگر گھر کے اُوپری حصے میں کسی بھی وجہ سے دراڑیں پڑ جائیں تو وہ قابل مرمت ہوتی ہیں۔ لیکن بنیادوں کو پہنچنے والے نقصان کی مرمت بہت مہنگی ہوتی ہے اور بعض بنیادیں تو اتنی کمزور ہو جاتی ہیں کہ اُن کی مرمت بھی ممکن نہیں رہتی، دیوان صفوان کہتے ہیں کہ اگر خوش قسمتی سے گھر کی بنیاد کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا تو بھی سیلابی پانی سیمنٹ اور بجری میں مل کر اور دیواروں میں جذب ہو کر سیم کی وجہ بنتا رہے گا، انجینئر دیوان صفوان کا کہنا تھا کہ اس کے لیے دیکھنا ہو گا کہ لینڈ اسیٹلمنٹ کتنی ہوئی ہے۔ کیا گھروں میں ہی کریکس آئے ہیں، یا اسٹرکچر اور گھروں کے سامنے کی سڑکیں بھی بیٹھ گئی ہیں، اگر پوری سوسائٹی کا لیول تبدیل ہو گیا ہے اور گھروں کی بنیادیں بھی متاثر ہوئی ہیں تو پھر ماہرین یہ سفارش کرتے ہیں کہ اس جگہ پر دوبارہ تعمیر نہ کی جائے لیکن اگر سٹرکچرل کریکس معمولی ہیں اور لینڈ اسیٹلمنٹ میں بھی اتنا فرق نہیں پڑا تو پھر یہ مرمت کے قابل ہوں گے۔ لیکن اس مرمت پر کافی خرچہ آتا ہے، واضح رہے کہ پارک ویو سوسائٹی سمیت دیگر سوسائٹیز کے ساتھ بہنے والے دریائے راوی پر کوئی بند نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ جب سیلابی صورتحال پیدا ہوئی تھی سوسائٹی انتظامیہ نے عارضی بند بنانے کی کوشش کی جو ٹوٹ گئے تھے، پارک ویو سوسائٹی میں تعمیر گھروں کی پائیداری کا تو انھیں اندازہ لگانا فی الحال مشکل ہے اس کیلئے پانی اُترنے کا انتظار کیا جانا ہے لیکن سیلابی پانی کی بدبو اور سیم ان گھروں سے جلد ختم ہونے والی نہیں ہے، اہل حل وعقد بہت بے حس ہوچکے ہیں سیاسی فائدے کیلئے مجرموں پر ہاتھ نہیں ڈالتے اب ایسا نہیں ہونا چاہیئے، اعلی عدالتی کمیشن تشکیل دیا جائے اور دریاؤں میں سوسائیٹز بنانے کی اجازت لینے اور دینے والوں دونوں کا کڑا احتساب کیا اور کسی مجرم کو مقتدرہ کا پسندیدہ ہونے کی بنا پر معاف نہیں کیا جائے۔
پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ آبی گزرگاہوں پر کمرشل تعمیرات کی گئیں، دریاؤں کی زمینوں پر ہاؤسنگ سوسائیٹیز بنائی گئیں جس سے حالیہ سیلاب میں تباہی وبربادی ہوئی، وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے سیلابی صورتحال پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ یہ آفت قدرتی آفت نہیں ہے بلکہ یہ ہمارے اعمال ہیں کہ ہم اتنی بڑی آفت کا سامنا کر رہے ہیں، ہم نے دریاؤں پر ہوٹل بنالئے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ دریاؤں کے راستوں کو تنگ کرکے ہاؤسنگ سوسائیٹیاں بنائی جارہی ہیں، نالوں کے اندر پلاٹ بناکر بیچ دیئے گئے، جب آپ قدرت کے ساتھ کھلواڑ کریں گے تو فطرت اس کا جواب دے گی، جی ہاں خواجہ صاحب آپ نے درست نتیجہ نکالا ہے درپیش صورتحال ہمارے اعمال کا نتیجہ ہے، آپ کی حکومت کے دور میں ظلم و جور بہت زیادہ بڑھا، اداروں کے سربراہ بے لگام ہوگئے، انتخابات کو چوری کیا گیا، ایک قیدی خاتون جوکہ ملک کی خاتون اؤّل بھی رہیں ہیں وضو کیلئے گندا پانی فراہم کیا جائے گا تو عذاب الہی تو نازل ہوگا یاد رہے اصلاح کا وقت بہت کم رہ گیا ہے، سیاسی قیدیوں کو فوری رہا کیا جائے، وقت مقررہ پر اداروں کے سربراہاں کو گھر کا راستہ دکھایا جائے اور نئے لیفٹینٹ جنرل کو موقع دیا جائے کہ وہ سویلین حکومت کے تابع ملک کی خدمت کرئے۔
منگل, اکتوبر 14, 2025
رجحان ساز
- ہائبرڈ نظام کا نتیجہ پنجاب میں جان لیوا پولیس مقابلوں میں تشویشناک اضافہ ہوا، انسانی حقوق کمیشن
- برادر کُشی ہرگز قبول نہیں پاکستانی مقتدرہ کو سمجھنا ہوگا افغان عوام اور طالبان الگ الگ حقیقتیں ہیں
- پاکستانی فوج میں بعض افراد افغانستان کی سکیورٹی اور ترقی سے خوش نہیں، ذبیح اللہ مجاہد کی ہرزہ سرائی
- غزہ پر جارحیت کے دوسال سائبر حملوں سے 40 فیصد اسرائیلی انٹیلی جنس نظام متاثر یا سست پڑ گئے
- اسرائیل اور پاکستان کی سفارش کے باوجود صدر ٹرمپ نوبل امن پرائز کیوں نہ مل سکا؟ 😎😎
- امریکی صدر کے 20 نکات ردی دان کی نذر ہوگئے، حماس کے 8 نکات جنگ بندی کی بنیاد ہوں گے
- ایس آئی ایف سی کو آئین کیخلاف ادارہ قرار دینے پر ایمل ولی خان نے وزیر اعظم سے معافی مانگ لی!
- اورکزئی میں دہشت گردوں سے جھڑپ، ایک لیفٹیننٹ کرنل اور میجر سمیت 11 فوجی جوان شہید