ہندوستان میں مرکزی حکومت کے زیرِ انتظام علاقے لداخ کو مکمل ریاست کا درجہ دینے کا مطالبہ کرنے والے مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپوں میں پانچ افراد ہلاک اور 30 پولیس اہلکاروں سمیت کم از کم 59 دیگر زخمی ہوگئے ہیں، ان مظاہروں کو 1989 کے بعد لداخ میں ہونے والے سب سے پرتشدد مظاہرے کہا جا رہا ہے، بدھ کے روز نوجوانوں کے گروپوں کی جانب سے لداخ کے دارالحکومت لیہہ کو بند کرنے کی کال کے جواب میں سینکڑوں افراد سڑکوں پر نکل آئے جس کے بعد کچھ مظاہرین نے توڑ پھوڑ کی اس کے بعد مظاہرین نے مرکز میں برسرِ اقتداربھارتی جنتا پارٹی کے ہیڈکوارٹر کو نشانہ بنایا جبکہ کئی گاڑیوں کو بھی نذرِ آتش کردیا، سرکاری اہلکاروں نے خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کو بتایا کہ صورتحال پر قابو پانے کے لیے شہر بھر میں بڑی تعداد میں تعینات پولیس اور نیم فوجی دستوں نے آنسو گیس کے شیلز استعمال کیے، کم از کم چھ زخمیوں کی حالت تشویشناک ہونے کے باعث ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ہے، یہ احتجاج وفاق کے زیر انتظام علاقے میں چل رہی ایک بڑی تحریک کا حصہ ہیں جو زمین اور زرعی فیصلوں پر خود مختاری کے لیے انڈین حکومت سے لداخ کو ریاست کا درجہ دینے کا مطالبہ کر رہے ہیں، ہندوستان کی مرکزی حکومت نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ کچھ لوگ لداخ کے لوگوں کے ساتھ مکمل ریاست کا درجہ دینے اور چھٹے شیڈول کی توسیع پر ہونے والے مذاکرات کی پیشرفت سے خوش نہیں اور اس میں رکاوٹیں ڈال رہے ہیں، واضح رہے لداخ کو جموں و کشمیر سے 5 اگست 2019 کو الگ کیا گیا، جب نریندر مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) حکومت نے بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 اور 35A کو ختم کرکے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت چھین لی۔ اسی فیصلے کے تحت ریاست جموں و کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا، لداخ کو علیحدہ یونین ٹیریٹری تو قرار دیا گیا مگر یہاں اسمبلی کے قیام کیلئے قانون سازی 5 سال گزر جانے کے باوجود نہیں کی گئی اور اس حساس علاقے کو نئی دہلی کے ذریعے چلایا جارہا ہے، یہ بھی یاد رہے مقبوضہ جموں کشمیر پاکستان اور ہندوستان کے درمیان متنازعہ علاقہ ہے۔
بی جے پی اور آر ایس ایس طویل عرصے سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو قومی اتحاد میں رکاوٹ قرار دیتے آئے تھے، اس کا خاتمہ ہندو قوم پرست سیاست کا پرانا وعدہ تھا تاکہ ایک ہندوستان کا اس علاقے پر بیانیہ مضبوط ہو، لداخ کو براہِ راست مرکز کے ماتحت لانے سے ہندوستان نے اس خطے پر براہِ راست سیاسی و عسکری کنٹرول قائم کرلیا، یہ علاقہ سرحدی اعتبار سے حساس ہے کیونکہ یہاں ہندوستان کی سرحدیں چین اور پاکستان دونوں سے ملتی ہیں، لداخ میں کارگل اور سکم جیسے حساس محاذ موجود ہیں، ہندوستان نے اسے الگ کرکے چین کے ساتھ لداخ سرحد خصوصاً گلوان ویلی اور اکسائی چن کے قریب ہے پر اپنی عسکری پوزیشن کو مزید مستحکم کرنے کی کوشش کی، کارگل مسلم اکثریتی علاقہ ہے جس پر پاکستان کا دعویٰ ہے یہاں پاکستانی اور ہندوستانی فوج کے درمیان عسکری تصادم ہوچکا ہے، ریاست جموں و کشمیر کو دو حصّوں میں تقسیم کرکے اور خصوصی حیثیت چھین کر نئی دہلی نے کشمیریوں کی اجتماعی شناخت اور سیاسی مزاحمت کو تقسیم کرنے کی حکمتِ عملی اپنائی ہے، لداخ کو براہِ راست مرکز کے تحت لا کر ہندوستانی حکومت نے فوجی انفراسٹرکچر پر زیادہ سرمایہ کاری کی مگر عوام کی فلاح اور بہبود پر کوئی توجہ نہ دی۔
منگل, اکتوبر 14, 2025
رجحان ساز
- ہائبرڈ نظام کا نتیجہ پنجاب میں جان لیوا پولیس مقابلوں میں تشویشناک اضافہ ہوا، انسانی حقوق کمیشن
- برادر کُشی ہرگز قبول نہیں پاکستانی مقتدرہ کو سمجھنا ہوگا افغان عوام اور طالبان الگ الگ حقیقتیں ہیں
- پاکستانی فوج میں بعض افراد افغانستان کی سکیورٹی اور ترقی سے خوش نہیں، ذبیح اللہ مجاہد کی ہرزہ سرائی
- غزہ پر جارحیت کے دوسال سائبر حملوں سے 40 فیصد اسرائیلی انٹیلی جنس نظام متاثر یا سست پڑ گئے
- اسرائیل اور پاکستان کی سفارش کے باوجود صدر ٹرمپ نوبل امن پرائز کیوں نہ مل سکا؟ 😎😎
- امریکی صدر کے 20 نکات ردی دان کی نذر ہوگئے، حماس کے 8 نکات جنگ بندی کی بنیاد ہوں گے
- ایس آئی ایف سی کو آئین کیخلاف ادارہ قرار دینے پر ایمل ولی خان نے وزیر اعظم سے معافی مانگ لی!
- اورکزئی میں دہشت گردوں سے جھڑپ، ایک لیفٹیننٹ کرنل اور میجر سمیت 11 فوجی جوان شہید