پاکستان کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین جنید اکبر کا کہنا ہے کہ چینی کی برآمدات میں 300 ارب روپے کا ڈاکہ ڈالا گیا ہے، چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی جنید اکبر نے منگل کو کہا ہے کہ یہ 300 ارب روپے کی کمائی صرف رواں مالی سال کے چند مہینوں میں ہوئی ہے اور سب کو معلوم ہے سب سے زیادہ چینی کی ملز حکمرانوں کی ہیں، چئیرمین پی اے سی جنید اکبر نے برطانوی نیوز نیٹ ورک کو بتایا ہے کہ کمیٹی اجلاس میں انکشاف ہوا ہے کہ حکمرانوں نے چینی کی برآمدات کے ذریعے 300 ارب روپے کمائے ہیں اور اس معاملے میں کئی مل مالکان کے نام سامنے آرہے ہیں، یہ تمام مالکان چاہے وہ برآمد کرنے والے ہوں یا درآمد کرنے والے، لسٹ میں شامل ہیں، پاکستان میں چینی کی قیمتوں میں حالیہ دنوں کے دوران خاصا اضافہ دیکھا گیا ہے، شوگر ملز نے سرکاری قیمت 165 روپے فی کلو پر چینی کی فراہمی روک دی ہے جس سے مارکیٹ میں قلت پیدا ہوگئی، ذخیرہ اندوزی، سرکاری معاہدوں کی خلاف ورزی اور بروقت فراہمی نہ ہونے کے باعث پاکستان میں چینی کی قیمتیں 190 سے 200 روپے فی کلو تک پہنچ گئی ہیں، حکومت نے شوگر ملز کے ذخائر کی کڑی نگرانی، درآمد کے فیصلے اور فوری کارروائی کا اعلان کیا ہے لیکن اب بھی صورت حال قابو میں نہیں آئی ہے، حزب اختلاف کا کہنا ہے کہ حکومت نے چینی کی حد سے زیادہ برآمد کی اجازت دی اور جب ملک میں قلت پیدا ہونے لگی تو پھر درآمد کرنے کی کوشش کی ہے، حکومتی اخراجات کی نگرانی کرنے والی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین اور پاکستان تحریک انصاف کے رہنما جنید اکبر کا کہنا ہے کہ ہمیں بھی حال ہی میں معلوم ہوا کہ ہر ماہ چینی کی ایکسپورٹ سے کروڑوں روپے کمائے گئے، جب ان سے پوچھا گیا کہ آیا وہ کسی مل مالک یا برآمد کنندہ کا نام میڈیا کو بتانا چاہیں گے تو جنید اکبر کا کہنا تھا کہ سب کو معلوم ہے سب سے زیادہ چینی کی ملز کس کی ہیں، اُن کا اشارہ نوازشریف اور زرداری خاندان کی طرف تھا۔
جنید اکبر نے وضاحت کی کہ یہ 300 ارب روپے کی کمائی صرف رواں مالی سال کے چند مہینوں میں ہوئی ہے، برآمدات کی اجازت اس بنیاد پر دی گئی تھی کہ ملک میں چینی کا سرپلس موجود ہے اور ساتھ یہ شرط بھی رکھی گئی تھی کہ نرخ نہیں بڑھائے جائیں گے مگر صرف ایک مہینے بعد ہی کمٹمنٹ پوری نہیں کی گئی اور قیمتیں بڑھا دی گئیں، اس سے قبل چیئرمین جنید اکبر کے زیر صدارت پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس ہوا جہاں چینی بحران سے متعلق معاملہ زیر غور آیا، سیکریٹری وزارت صنعت و پیداوار نے بریفنگ میں بتایا کہ چینی کی صنعت کو صوبائی حکومتیں ریگولیٹ کرتی ہیں جبکہ ایڈوائزری بورڈ میں وفاقی و صوبائی حکومتوں اور صنعت کے نمائندے شامل ہوتے ہیں یہ بورڈ موجودہ اسٹاک اور ضروریات کا جائزہ لیتا ہے، سیکریٹری وزارت صنعت نے بتایا گذشتہ 10 سالوں میں 5.09 ملین میٹرک ٹن چینی برآمد کرنے کا فیصلہ کیا گیا تاہم 3.927 ملین ٹن چینی برآمد کی گئی، سال 24-2023 میں 68 لاکھ ٹن چینی کی پیداوار تھی جبکہ مجموعی دستیاب اسٹاک 76 لاکھ ٹن تھا، اس طرح گذشتہ برس آٹھ لاکھ ٹن چینی سرپلس میں تھی، سیکریٹری کے مطابق اقتصادی رابطہ کمیٹی نے سات لاکھ 90 ہزار ٹن چینی برآمد کرنے کی منظوری دی بعد ازاں پانچ لاکھ ٹن چینی درآمد کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا، اس دوران کاشتکاروں کے واجبات ادا نہ کرنے والی ملز کو برآمد کا کوٹہ نہیں دیا گیا، انہوں نے بتایا پاکستان نے 21 ممالک کو چینی برآمد کی گئی جس میں سب سے زیادہ چار لاکھ 94 ہزار ٹن چینی افغانستان برآمد کی گئی، سیکریٹری صنعت نے کہا ملک میں اس وقت نومبر تک کا چینی کا اسٹاک موجود ہے، رواں برس چینی درآمد کرنی پڑے گی۔
دوسری جانب سیکریٹری فوڈ سکیورٹی نے کہا ہمارا تخمینہ تھا کہ نومبر میں چینی سرپلس ہوگی تاہم گنے کی پیداوار کم ہونے اور کرشنگ تاخیر سے ہونے سے مسائل پیدا ہوئے، چیئرمین کمیٹی کے سوال اس وقت چینی کی قیمت کیا ہے؟ پر سیکریٹری فوڈ سکیورٹی نے بتایا کہ اس کی قیمت 173 روپے فی کلو تک ہے، اس جواب پر تشویش کا ظہار کرتے ہوئے چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی جنید اکبر نے کہا چینی اس وقت ہر جگہ 210 روپے فی کلو تک فروخت ہورہی ہے، جنید اکبر نے کہا صرف 42 شوگرملز کی وجہ سے عوام کو خوار کیا جارہا ہے، ہم نے شوگر ملز مالکان کی فہرست مانگی تھی، ان مالکان کو برآمد کیلئے سبسڈی کیوں دی گئی، چیئرمین کمیٹی نے حکام کی جانب سے چینی ملز مالکان کی تفصیلات فراہم نہ کیے جانے پر سیکریٹری صنعت پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کچھ دیر میں چینی ملز مالکان کے نام نہ آئے تو تحریک استحقاق لائیں گے، اجلاس کے دوران کمیٹی رکن عامر ڈوگر نے دعویٰ کیا کہ ملک میں سب سے زیادہ شوگر ملز زرداری خاندان کی ہیں، دوسرے نمبر پر جہانگیر ترین اور تیسرے پر شریف فیملی کی ہیں، یہ تمام افراد حکومتوں کا حصہ ہیں، اس بات پر پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے اراکین نے احتجاج کیا اور بعد ازاں پاکستان تحریک انصاف کے اراکین سے الجھ پڑے، دوسری جانب اجلاس کے دوران آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے انکشاف کیا کہ چینی کی قیمتوں میں حالیہ ردوبدل سے شوگر ملز نے 300 ارب روپے کمائے ہیں، اس پر چیئرمین پی اے سی نے ردعمل دیتے ہوئے کہا صرف 42 خاندانوں نے 300 ارب روپے کمائے ہیں۔
بدھ, اکتوبر 15, 2025
رجحان ساز
- ہائبرڈ نظام کا نتیجہ پنجاب میں جان لیوا پولیس مقابلوں میں تشویشناک اضافہ ہوا، انسانی حقوق کمیشن
- برادر کُشی ہرگز قبول نہیں پاکستانی مقتدرہ کو سمجھنا ہوگا افغان عوام اور طالبان الگ الگ حقیقتیں ہیں
- پاکستانی فوج میں بعض افراد افغانستان کی سکیورٹی اور ترقی سے خوش نہیں، ذبیح اللہ مجاہد کی ہرزہ سرائی
- غزہ پر جارحیت کے دوسال سائبر حملوں سے 40 فیصد اسرائیلی انٹیلی جنس نظام متاثر یا سست پڑ گئے
- اسرائیل اور پاکستان کی سفارش کے باوجود صدر ٹرمپ نوبل امن پرائز کیوں نہ مل سکا؟ 😎😎
- امریکی صدر کے 20 نکات ردی دان کی نذر ہوگئے، حماس کے 8 نکات جنگ بندی کی بنیاد ہوں گے
- ایس آئی ایف سی کو آئین کیخلاف ادارہ قرار دینے پر ایمل ولی خان نے وزیر اعظم سے معافی مانگ لی!
- اورکزئی میں دہشت گردوں سے جھڑپ، ایک لیفٹیننٹ کرنل اور میجر سمیت 11 فوجی جوان شہید